قومی نغمات کی مختصر تاریخ
قسط : ۲
تحریر : ابصار احمد
کراچی جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا یہاں سرکاری ریڈیو نے تیزی سے ترقی شروع کی جس کی وجہ یہاں اہلِ علم و فن کا تیزی سے آباد ہونا تھا ، کراچی ریڈیو کے پاس ابتداء میں کوئی نمایاں توگلوکار نہیں تھے جنہیں پیشہ ورانہ گلوکاری کی مہارت حاصل ہو لیکن جلد ہی یہاں سے خوبصورت آوازیں ابھرنا شروع ہوئیں جن میں احمد رشدی ، رشیدہ بیگم ، ایس بی جان ، خورشید بیگم ، نجم آرا, زوار حسین ، کوکب جہاں ، کجّن بیگم زوار حسین ، کوکب جہاں ، کجّن بیگم اورنسیمہ شاہین وغیرہ کے نام شامل ہیں جبکہ نہال عبداللہ ، پنڈت غلام قادر ، مہدی ظہیر اور رفیق غزنوی جیسے موسیقاروں کی موجودگی اس ادارے کے نو آموز فنکاروں کے لیے کافی تھی، کراچی ریڈیو میں چونکہ ریکارڈنگ کی سہولیات میسر نہیں تھی اسی لیے یہاں بھی گلوکار براہِ راست ہی دیگر گیتوں کی طرح قومی نغمات بھی گاتے ، سجاد سرور نیازی ( والد ناہید نیازی ) جو پشاور کی طرح یہاں کے پہلے اسٹیشن ڈائریکٹر تھے انہوں نے قومی نغمات کے ضمن میں توجہ دی لیکن چونکہ اس وقت ریڈیو کے تمام اسٹیشنز کا دورانیہ کم تھا اور صرف ۸ گھنٹے کی نشریات جس میں خبریں ، حالاتِ حاضرہ کے ساتھ ساتھ ہر جہت کے پروگرامز ہوں ان میں موسیقی کا وقت کہاں بچتا ہوگا مگر پھر بھی عوام میں ریڈیو کی مقبولیت کی وجہ فلمی گانے اور گیت ہی تھے ، اب جبکہ اس وقت بھارتی گانے بھی ریڈیو سے نشر ہوتے تھے تو یہاں کے گلوکاروں کے آئٹمز بھی ریڈیو کی ضروریات کے لیے ہی ریکارڈ ہوتے تو ان میں قومی نغمات کی تعداد صرف گنتی ہی کی ہوسکتی تھی ، ریڈیو پاکستان کے شمارے آہنگ ( اگست ۱۹۵۰ ) کے مطابق یومِ آزادی پر ریڈیو اسٹیشنز سے قومی نغمات کا پروگرام صرف ۲۰ منٹس پر مشتمل تھا جن میں گراموفوگراموفون ریکارڈز سے قومی نغمات نشر کیے گئے ۔
1948 میں جب بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے قوم کو سوگوار چھوڑا تو اس قومی سوگ کے موقع پر کراچی ریڈیو نے شیر محمد باتش کی آواز میں تنویز نقوی کا تحریر کردہ ایک خصوصی مرثیہ تیار کیا جو حزنیہ دھن میں صرف اسی دن ہی نشر ہوا جس کے بول کچھ یوں تھے :
"السلام اے فاطمہ کے دیدہ پرنم سلام
السلام اے غریبوں کے قائدِ اعظم سلام "
یہ مرثیہ قائدِ اعظمؒ کی تدفین کے فوراََ بعد نشر ہوا، اسی طرح لاہور ریڈیو نے بھی قائدؒ کے حضور ایک شاندار خراجِ تحسین عبدالشکور بیدل اور ساتھیوں کی آواز میں تیار کیا جو قائدِ اعظمؒ کی وفات پر ملکِ پاکستان کے لیے دعا تھی جو کچھ اس طرح تھی کہ
" ملت سے جدا ہوگئے ہیں قائدِ اعظم
لیکن رہے سدا بلند ان کا یہ پرچم
آمین ، آمین سب کہو آمین "
ابتدائی زمانے میں ۲۵ دسمبر کو منور سلطانہ اور علی بخش ظہور کے ترانے تمام اسٹیشنز سے گونجتے جو انہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل ریکارڈ کرائے تھے جنہیں میاں بشیر احمد نے تحریر کیا ۔ ریڈیو لاہور نے بعد میں مغنیہ نسیم اختر کی آواز میں قائدِ اعظم کے حضور ایک خوبصورت نذرانہ " نچھاور تم پہ جان و دل ہمارے قائدِ اعظم " تیار کیا تھا ، اسی طرح منور سلطانہ بھی لاہور سے فیاض ہاشمی کے الفاظ میں عظیم قائد کی ہمت اور حوصلہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ " اللہ حوصلہ اے قائدِ اعظمؒ تیرا
نذرِقائدِ اعظمؒ کے ساتھ ساتھ ابتدائی زمانے کے دیگر قومی نغمات لاہور ریڈیو سے دلشاد بیگم کا نغمہ " پاکستان کا گلشن آباد ہوا، دلشاد ہوا " بے حد مقبول تھا جسے فیاض ہاشمی نے تحریر کیا جبکہ منور سلطانہ کی آواز میں " ساڈا دیس اے پاکستان نی" بھی ہر فرد کی زبان پر تھا ۔ ریڈیو پاکستان پشاور سے دستیابی معلومات کے مطابق ایم قاسم نامی ایک گلوکار نے کلامِ اقبالؒ ریکارڈ کرائے جو " یارب دل، مسلم کو وہ زندہ تمنا دے " اور " چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا " پر مشتمل تھے
قومی نغمات کے ضمن میں پاکستان فلم انڈسٹری نے بھی اہم کردار ادا کیا ، پاکستان میں مکمل طور پر تیار ہونے والی پہلی فلم " شاہدہ" (1949 ) میں بھی ایک قومی نغمہ " الوداع الوداع پیارے وطن لو الوداع " شامل تھا جسے حکیم احمد شجاع کے الفاظ میں منور سلطانہ نے گایا جبکہ اس کی موسیقی ترتیب دی تھی غلام احمد چشتی صاحب نے ، لیکن یہ نغمہ قومی جوش کی بجائے دراصل ہجرت پر مبنی تھا اسی لیے ریڈیو پر مہاجرین کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ روزانہ نشر ہوتا بلکہ مہاجرین کی آبادکاری کے پروگرام " تعمیرِ وطن" کا یہ لازمی حصہ تھا ، اسی طرح 1954 کوکراچی کی پہلی فلم " ہماری زبان " میں نذیر بیگم نے قومی زبان پر ایک نغمہ " ہماری زبان اردو پیاری زبان اردو" ریکارڈ کرایا جسے غلام نبی عبداللطیف کی موسیقی میں عطاء محمد نے تحریر کیا ، ۱۹۵۵ میں فلم شرارے میں بھی دو قومی نغمات شامل تھے جنہیں عنایت حسین بھٹی اور پکھراج پپّو نے مشترکہ طور پر گایا ، فیروز نطامی کی موسیقی میں تنویر نقوی کے تحریر کردہ نغمات کے بول یہ تھے :
۱) ہمت والے او متوالے
۲) او سفینہ ڈوبے نہ
فلم کارنامہ جس میں احمد رشدی نے پہلی بار فلمی گلوکاری کا مظاہرہ کیا اس میں بھی احمد رشدی کا پہلا فلمی گیت قومی نغمہ ہی تھا جو انہوں نے گلستان خان کے ساتھ استاد نتھو خان کی موسیقی میں گایا ، نغمہ کا مکھڑا کچھ یوں ہے " جدھر نظر اٹھائیں گے ، جدھر قدم بڑھائیں گے ۔۔۔۔ ہم منزلوں کو پائیں گے "
فلم " بڑا آدمی " ( ۱۹۵۵ ) میں بھی نذیر بیگم اور ساتھیوں کی آوازوں میں غلام نبی عبداللطیف کی موسیقی اور کلیم عثمانی کا تحریر کردہ قومی نغمہ " اپنے لہو کا کا رنگ گلوں میں رچائیں گے ، اے ارضِ پاک تجھ کو جنت بنائیں گے" بھی شامل تھا جو کراچی ریڈیو سے بھی بے حد مقبول ہوا ۔
پاکستانی قومی نغمات کی داستان میں قومی ترانہ ایک اہم باب ہے جو کراچی ریڈیو پر تیار ہوا اس کا ذکر ءانشاء اللہ اگلی قسط میں ہوگا .
#HistoryOfNationalSongs #MilliNaghmay #QaumiNaghmay #Tareekh #MunawarSultana