Awais Poetry
 

History of Pakistani National Songs ( Part 1 )

(قومی نغمات کی مختصرتاریخ  (قسط اول
تحریر و تحقیق : ابصار احمد 

قیامِ پاکستان کے 70سال مکمل ہونے پر پاکستانی قومی نغمات کی تاریخ کا سلسلہ پیش کررہاہوں جو اب تک کسی بھی شکل میں اشاعت پذیر نہیں ہوا ، ریکارڈ شدہ اور موسیقی سے ہم آہنگ قومی نغمات کی تاریخ پر اب تک کسی نے تحقیقی کام نہیں کیا ہے جو الحمداللہ اس ذاتِ باری نے میرے حصے میں رکھا تھا جسے جلد کتابی صورت میں لاؤں گا مگر سوشل میڈیا پر دوستوں کی فرمائش نے مجبور کیا کہ ستّر سالوں میں نغمات پر جس طرخ ملکی اخبارات میں مضامین اور انٹرنیٹ پر بلاگز لکھے اسی طرح ایک مختصر تاریخ بھی لکھ دی جائے تو آج بوقتِ فجر سے یہ سلسلہ شروع ہورہا ہے ، یہ واضح رہے کہ یہ مختصر تاریخ ہے اسی لیے کوئی ذاتی بغض یا عناد سے تنقید نہ کرے کہ فلاں نغمہ رہ گیا ، کوشش کروں گا کہ اس سلسلہ میں ایک اہم آؤٹ لائن بن جائے اور موضوعات کا احاطہ بھی ہوجائے مگر چونکہ کتاب زیرِتکمیل ہے اسی لیے تھوڑی تشنہ لبی رہنی چاہیے ۔
پاکستانی قومی نغمات کا آغاز قیامِ پاکستان کی شب سے ہی شروع ہوگیا تھا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قیامِ پاکستان سے قبل ہی پاکستانی ملّی نظموں کو موسیقی کے قالب میں ڈھال کر ملّی نغمات بننا شروع ہوگئے تھے ، اس ضمن میں کلامِ اقبالؒ نے اہم کردار ادا کیا ، پاکستانی قومی شاعر کی حیثیت سے ان کی قومی شاعری بلاشبہ ہمارے ملّی نغمات کا حصہ ہے ، اور وہ گلوکار جنہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل وہ کلام ملّی جذبے سے گائے ہمارے ہی ملّی نغموں کا حصہ ہیں البتہ لفظ پاکستان کے ساتھ پہلا ملّی نغمہ اعجاز علی کی آواز میں لاہور ریڈیو پر تیار ہوا جس کے بول" کیا ہی پاکیزہ و طاہر نام پاکستان ہے " تھے ، یہ نغمہ ۱۹۴۷ ہی میں بنا ، اس سے قبل کل ہند مسلم لیگ کی جانب سے ۱۹۴۵ میں ہز ماسٹر وائس گراموفون کمپنی کی ڈسک پر منور سلطانہ اور علی بخش ظہور کی مشترکہ آوازوں میں میاں بشیر احمد کی دو معروف نظمیں جو تحریکِ پاکستان کا حصہ تھیں لاہور ریڈیو کے موسیقار غلام قادر فریدی کی موسیقی میں نشر ہوئے ، ۷۸ کی رفتار سے چلنے والی اس ڈسک کی کاپی قائدِ اعظمؒ کو بھی پیش کی گئی ۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو آزادی کا شور تھا تو اسی دن لاہور، پشاور اور ڈھاکا ریڈیو شبِ آزادی کی نشریات میں مصروف تھے ، ۱۴ اور ۱۵ کی درمیانی شب جب اعلانِ قیامِ پاکستان ہوا تو کلام اللہ سے ترانہ یعنی سورۃ الفتح کی تلاوت کے بعد نشریات شروع ہوتی ہے تو اسی رات پشاور ریڈیو سے اسٹیشن ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی اور ساتھیوں کی آوازوں میں احمد ندیم قاسمی کا تحریر کاردہ نغمہ "پاکستان بنانے والو پاکستان مبارک ہو"گونجتا ہے ، اس وقت ریڈیو کے کسی بھی اسٹیشن کے پاس ریکارڈنگ کی سہولیات موجود نہ تھیں اسی لیے یہ نغمہ محفوظ نہ ہوسکا اور چونکہ اس میں نغمگی نہیں تھی بس ردھم پر ایک کورس تھا اسی لیے کسی ریکارڈنگ کمپنی نے بھی اسے محفوظ نہیں کیا ، پشاور ریڈیو کے اس اہم ترانے سے اس طرح غفلت برتی گئی کہ قاسمی صاحب نے بھی اسے کہیں شائع نہیں کروایا بلکہ ان کو اس ابتدائی بول کے علاوہ کچھ یاد بھی نہ تھا ! بہرحال قاسمی صاحب کے بقول اُس دن انہوں نے ۳ ترانے لکھے تھے ، پشاور ریڈیو کے بعد اہم ریڈیو لاہور اسٹیشن تھا جہاں فنکاروں کی بڑی تعداد تھی جو مقامی طور پر مناسب شناخت رکھتی تھی ، انہی میں ایک اہم نام منور سلطانہ کا بھی تھا جو فلموں کے لیے اپنی آواز کا جادو جگا رہی تھیں ، قائدِ اعظمؒ کے لیے دو سال قبل سب سے پہلے نغمات گانے والی اس گلوکارہ نے شوکت تھانوی کا تحریر کرد نغمہ " چاند روشن چمکتا ستارہ رہے " سب سے پہلے پیش کیا تو یہ بھی پاکستان کا پہلا قومی نغمہ تھا بلکہ قاسمی صاحب کا ترانہ جب پشاور ریڈیو سے نشر ہورہا تھا تو لاہور سے منور سلطانہ یہ نغمہ دلشاد بیگم اور ساتھیوں کے ساتھ گارہی تھیں اسی لیے یہ پاکستان کا پہلا نشر شدہ قومی نغمہ کہلاتا ہے جو پاکستان کی آزاد فضاؤں میں پہلی بار گونجا ، منور سلطانہ اسی دن اپنے والد کے ساتھ ہنگامی حالات میں لاہور ریڈیو آئی تھیں اور یہ نغمہ ریکارڈ کروایا جس کی ریہرسل ۱۲ اگست سے ہی قادر فریدی صاحب کی موسیقی میں ہورہی تھی ( اس نغمہ کے متعلق ریڈیو پاکستان کے ماہنامہ آہنگ نے ۱۹۴۸ کو اگست میں ایک مضمون شائع کیا ، بعنوان آزادی کی یادیں ، اس مضمون میں منور سلطانہ نے خود نغمے کا نام بتایا ہے ، اس کے علاوہ اسلام شاہ مرحوم صاحب کا منور سلطانہ سے لیا گیا انٹرویو بھی موجود ہے جس میں انہوں نے ایک بار پھر بتایا اور سب سے بڑھ کر لاہور ریڈیو کی لاگ شیٹ ہے جو بتارہی ہے کہ چاند روشن چمکتا ستارہ رہے لاہور کی طرف سے پاکستان کا پہلا قومی نغمہ تھا ) یہ نغمہ جب آزاد فضاؤں میں نشر ہوا تو قومی پرچم اور قومی جذبے سے پُر اس نغمے نے سامعین کی آنکھیں پرنم کردیں ، منور سلطانہ اور دلشاد بیگم کی مشترکہ آوازوں میں یہ نغمہ اس ایک عرصہ تک روزانہ ریڈیو سے دو یا تین بار نشر ہوتا بلکہ کسی کسی موقع پر یہ بطورِ قومی ترانہ بھی پیش کیا گیا ( کیونکہ اس وقت قومی ترانہ نہیں بنا تھا )، اس نغمے کے گراموفون ریکارڈ بھی تیار ہوئے جس کی دونوں جانب یہی نغمہ تھا اور یہ لاہور اسٹیشن پر ہجرت کرکے آنے والے ان لوگوں کو بھی پیش کیے جاتے جن کے پاس گراموفون ہوتا یا جو باذوق لگ رہے ہوتے جبکہ اسٹیشن پر اسی کی گونج سنائی دی جاتی ( معلومات بشکریہ کرنل (ر) حبیب الرحمٰن ، ساکنِ لاہور جو اس وقت سیکنڈ لیفٹننٹ تھے ) ۔
قیامِ پاکستان کی شب لاہور ریڈیو سے مولانا ظفر علی خان کا نغمہ " توحید کی تانیں اڑائے جا "اور اقبالؒ کی ملی نظم "ساقی نامہ" کے کچھ حصے " زمانے کے انداز بدلے گئے" بھی بطرزِ قوالی نشر ہوئے جو موقع مناسبت سے تیار کیے گئے تھے ( بحوالہ : پاکستان کا قومی ترانہ کیا حقیقت کیا فسانہ از عقیل عباس جعفری ) ۔ کچھ بھارت نواز اور کچھ سادہ لوح افراد میں یہ بات ایک سازش کے تحت عام ہوئی ہے کہ اس دن جگن ناتھ آزاد کا ترانہ بھی نشر ہوا جو پاکستان کا قومی ترانہ تھا جبکہ ایسا کچھ نہیں نہ ریڈیو کا ریکارڈ کچھ کہتا ہے نہ تاریخ ! اور لوگوں کا حافظہ بھی اتنا کمزور نہیں کہ انہیں ایک اہم چیز سن کر بھی یاد نہ ہو ! بہر حال اس کا مربوط جواب جناب عقیل عباس جعفری صاحب نے اپنی تحقیقی کتاب "پاکستان کا قومی ترانہ کیا حقیقت کیا فسانہ " لکھ کر دے دیا ہے. 15 اگست کی صبح پرچم کشائی کی تقریب میں اسرار الحق مجاز کا تحریر کردہ نغمہ " پاکستان زندہ باد آزادی پائندہ باد " کورس میں نیوی بینڈ پر پڑھا گیا جو شرکاء نے مل کر پڑھا اس کی بھی کوئی خاص دھن نہ تھی نہ گانے والے کوئی باضابطہ گلوکار تھے ۔
لاہور ریڈیو سے ابتدائی زمانے میں ستارہ بیگم کی آواز میں " مبارک آزادی مبارک آزادی " اور " فردوس کا نقشہ ہے پاکستان ہمارا " بھی نشر ہوئے ، ان کے علاوہ پہلے یومِ آزادی پر لاہور ریڈیو سے اقبال بیگم اور ساتھیوں کی آوازوں میں خوبصورت نغمات " چن تارہ پاکستان دا" اور " رم جھم رم جھم ورسے "نشر ہوئے جنہیں سامعین نے بے حد پسند کیا جنبہ منور سلطانہ نے "اپنے دیس میں اپنا راج" ریکارڈ کروایا ، لاہور ریڈیو کے ایک کلاسیکل گلوکار علی بخش ظہور نے 'پاکستان زندہ باد" جیسا نغمہ گایا جو زرمیہ آہنگ پر تھا ۔ مشرقی پاکستان کے معروف گلوکار محمد عباس دین نے " زمیں فردوس پاکستان کی ہوگی زمانے میں " گایا جس کے گراموفون آتے ہی بک گئے ، اس نغمہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پہلا قومی نغمہ تھا جس کا اشتہار روزنامہ" انقلاب " لاہور میں شائع ہوا ( بشکریہ جناب امجد سلیم علوی صاحب فرزندِ مولانا غلام رسول مہرؒ ) ۔ دلشاد بیگم نے عبدالرؤف شیخ کا تحریر کردہ نغمہ " میرا دیس میری تقدیر اپنے دیس دی میں تصویر " گایا تو اس کا شمار بھی ابتدائی مقبول قومی نغمات میں ہوتا ہے ۔منور سلطانہ اور پائلٹ اسکول کے بچوں نے لاہور ریڈیو پر اقبالؒ کی تحریر کردہ "بچے کی دعا" کے ساتھ ایک خوبصورت قومی نغمہ " اونچی تیری شان سچی تیری آن پیارے پاکستان " بھی ریکارڈ کروایا جو ۱۹۵۴ تک لاہور کے علاوہ قومی نشریاتی رابطے پر بھی روزانہ صبح نشر ہوتا کہ قومی ترانے کا گمان ہونے لگا ۔ 
۱۹۴۸ میں کراچی ریڈیو قائم ہوا تو یہاں ریکارڈنگ کی سہولیات نہیں تھیں اور نہ موسیقی کے لیے معیاری اوقات تھے اسی لیے یہاں ابتدا میں یہاں موسیقی پر ذیادہ توجہ نہیں تھی تاہم کراچی کے علمی پروگرام اور فیچرز اپنی مثال آپ تھے ، پھر بھی کراچی ریڈیو پر مہدی ظہیر اور نہال عبداللہ جیسے موسیقار آگئے جنہوں نے اس اسٹیشن کو ایک فنّی درسگاہ بھی بنادی ، کراچی ریڈیو کا پہلا نغمہ محشر بدایونی کا تحریر کردہ " دیس ہمارا پاک وطن" تھا جسے کورس میں پیش کیا گیا ، یہاں بھی ریکارڈنگ کی سہولیات ابتدا میں نہ تھیں اسی لیے آوازیں محفوظ نہ ہوسکیں بلکہ ریڈیو کی لاگ شیٹ ہی تاریخ مرتب کرنے کا واحد ذریعہ ہے ۔
( جاری ہے )

#HistoryOfPakistaniNationalSongs #PakPatrioticSongs #MilliNaghmayTareekh #MilliNaghmay