احمدرشدی ۔۔۔پاکستانی قومی نغمات کا اولین بادشاہ
( احمد رشدی کے فلمی و غیر فلمی قومی نغمات پر پہلا مکمل تحقیقی مضمون )
تحریر : ابصار احمد
یہ ۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ء کا ذکر ہے جب بانیء پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو دارفانی سے گذرے صرف ایک ہفتہ ہی ہوا تھا،قوم کے ذہنوں میں ابھی تک اپنے محبوب قائد و مسیحا کے لیے غم کے بادل چھائے ہوئے کہ کہ بھارت نے اپنی بھرپور جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرکزِ علم و فن اور بالخصوص مرکزِ اردو ،سلطنتِ آصفیہ حیدرآباد دکن پر حملہ کردیا،بھارتی حکومت شاید بابائے قومؒ کی وفات ہی کی منتظر تھی اس لیے اس نے حملہ کرنے میں تاخیر نہ کی،حیدرآباد دکن جس کے مسلم حکمران نے ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا،وہاں نظامِ دکن اور وزیرِ اعظم مولوی مظہر علی کامل کے زیرِ انتظام پاکستان میں شمولیت کے لیے پرچمِ حریت بھی بلند ہوا لیکن شاید حیدرآباد دکن کی مسلم ریاست کی حیثیت سے دن پورے ہوچکے تھے،انگریزوں کی روایتی بے وفائی نے حیدرآباد کو بزورطاقت بھارت کے حوالے کردیا تو کئی اہلِ علم و فن محبتِ دین اور مسلم تہذیب میں سرحد پار کرکے مملکتِ خدادِ پاکستان آنے لگے جن میں وہاں کے شیخ الحدیث اور استادِ عربی و فارسی مولانا سید منظور محمدؒ کا گھرانہ بھی شامل تھا،یہ گھرانی شروع ہی سے پاکستان کا حامی تھا یہی وجہ ہے مولاناسید منظور صاحب حیدرآباد دکن میں مسلم لیگ کے حامی بھی تھے لیکن چونکہ ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی اس لیے وہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی ایک سال وہیں مقیم رہے تاآنکہ ریاست پر بھارت کا جبری قبضہ ہوا توانہیں معہ خاندان دکن کی سرزمین کو خیرباد کہنا پڑا،اس خاندان کی منزل پاکستان کا ہجرت کدہ کراچی تھا،اسی خاندان میں ایک فرد ایسا بھی تھا جسے اس کے وال قاری بنانا چاہتے تھے مگر اس نے روایت سے ہٹ کر اسٹیج اور شوبز کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا جو اس وقت مسلمان اور بالخصوص سید ہاشمی گھرانے کے لیے انتہائی معیوب ترین بات تھی،یہ لڑکا ابتداء میں شوق کی خاطر بغاوت کرکے گھر بھی چھوڑ آیا تھا کیونکہ اس کے والد ناصرف دینی و علمی شخصیت تھے بلکہ کئی اہلِ علم جن میں مولانا مودودی صاحبؒ بھی شامل ہیں ان سے زانوئے تلمذ کیا تھا ،مگر چونکہ صلاحیت،صلاحیت ہوتی ہے اس لیے وہ لڑکا جلد اسٹیج پر نام کمانے لگا،اس کی اونچے سر کی آواز میں بھی شوخ پن تھا جو کراچی آکر مزید کھلا اور ایسا کھلا کہ اس کے گیتوں کی صدائیں آج پاکستان کی نمائندہ آوازوں میں شمار کی جاتی ہیں،یہ نام سید احمد رشدی صاحب مرحوم کا ہے جو ۲۴ اپریل ۱۹۳۴ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے اور پھر ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوکر پاکستان فلم انڈسٹری میں ایسے شامل ہوئے کہ تقریباََ ڈھائی عشروں تک انہی کی آواز کا طوطی بولتا تھا۔
احمد رشدی جو ہماری دنیائے موسیقی میں شوخ و چنچل گانوں کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں لیکن باکمال گلوکار تھے،ہر صنف،ہر جہت پر ان کا گانا دل کی آواز سے نکل سامعین کے کانوں میں پہنچتا تو اس کی صدائے بازگشت دیر تک سنائی دی جاتی اور پھر وہ سننے والوں کے دلوں میں اپنے ادگار نقوش بھی چھوڑ جاتا،شوخ و چنچل سے لے کر مزاحیہ گانوں تک ہر قسم کی گائیکی پر احمد رشدی کو ملکہ حاصل تھا لیکن یہ بات بھی بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ احمد رشدی صاحب پاکستان کے ان گلوکاروں میں بھی ہوتا ہے جنہوں نے ۵۰ سے زائد قومی نغمات گائے ہیں،جو کسی اعزاز سے کم نہیں کہ ایک پروفیشنل گلوکار اپنے وطن کے لیے اتنے قومی نغمات گائے۔۔۔!! یہی حیثیت احمد رشدی کو یقیناََ ہماری قومی و ملّی تاریخ میں امر کرے گی جس پر عموماََ شائقینِ موسیقی کی نگاہ یا توجہ نہیں گئی جس کی وجہ شاید قومی نغمات سے دلچسپی کا وہ معیار نہیں جو رومانوی گانوں یا غزلوں کا ہے۔
احمد رشدی کو قومی نغمات میں کئی انفرادیت حاصل ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی موسیقی کے کیریئر کا آغاز ایک نیم قومی نغمہ’’بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ سے کیا اور ان کا آخری گیت ’’آنے والو! سنو۔۔۔میرے پیارو! سنو‘‘ بھی قومی نغمہ ہی تھا،پھر احمد رشدی کا سب سے بڑا اعزاز یہ کہ پاکستان کے سرکاری قومی ترانے میں ان کی آواز سب ذیادہ نمایاں ہے۔
احمد رشدی نے ریڈیو پاکستا کراچی سے اپنی پیشہ ورانہ گائیکی کا آغاز کیا تو سب سے پہلے بچوں کے پروگرام میں انہوں نے اس وقت پاکستان کے دارلحکومت کراچی پر مہدی ظہیر کا تحریر اور ترتیب کردہ نغمہ’’ بندر روڈ سے کیماڑی،میری چلی رے گھوڑا گاڑی‘‘ گایا ،پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے واحد ذریعے(ریڈیو پاکستان) کی توسط سے یہ نغمہ جب سامعین تک پہنچا تو ہر جگی رشدی کی دھوم مچ گئی،چونکہ کراچی اور اس کی سیر پھر اس میں قومی وقار اور دارالحکومت کی تعریف قوم ہی کے لیے ہے تو بلاشبہ یہ نغمہ قومی نغمات کی فہرست میں جگہ بنا سکتا ہے مگر پھر بھی ہم اسے نیم قومی نغمہ ہی کہہ کر مخالفین اور کٹ حجتیوں سے اپنی جان چھڑاسکتے ہیں ۔۔۔!!، بلاشبہ یہ نغمہ ناصرف مشہور و مقبول ہوا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نغمہ ریڈیو پاکستان کراچی کی پہچان بھی ہے یہی وجہ ہے کہ نصف صدی سے ذیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود یہ آج بھی تروتازہ ہے۔
۱۹۵۴ء کا سال ہمارے قومی نغمات کی تاریخ کا ایک اہم ترین سال ہے جب ہمارا سرکاری قومی ترانہ تیار ہوکر ارض وطن کی فضاؤں میں سبز رنگت لیے تحلیل ہوا،قومی ترانہ جس کے لیے شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان شہیدؒ نے ایک کمیٹی ترتیب دی تھی اس نے ۷۲۰ ترانے موصول ہونے کے بعد ابوالاثر حفیظ جالندھری کے قومی ترانے کو منظور کیا،اس کی دھن کذشتہ سال احمد علی چھاگلا صاحب نے ترتیب دی تھی جو شاہِ ایران رضا شاہ پہلی کی آمد پر سب سے پہلے بجائی گئی، اگست ۱۹۵۴ء میں قومی ترانے کی ریکارڈنگ کا کام ریڈیو پروڈیوسر ذوالفقار علی بخاری کی زیرِ نگرانی شروع ہوا تو انہوں نے ریڈیو پاکستان ہی کے اسٹاف آرٹسٹس کا چناؤ کیا جن میں احمد رشدی بھی شامل تھے،دیگر گلوکاران میں نسیمہ شاہین،نہال عبداللہ، زوار حسین،رشیدہ بیگم، خورشید بیگم،اختر وصی علی،غلام دستگیر،شمیم بانو و دیگر شامل تھے، پاکستان کا سرکاری قومی ترانہ ریڈیو پاکستان کراچی کے اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا پھر بعد میں ای ایم آئی (جو ہز ماسٹر وائس کے نام سے بھی ریکارڈ بناتی تھی) نے ریکارڈ پر کمپنی اور کوئی بھی تفصیل شائع کیے بغیر اس کے ریکارڈ بنائے اور تمام گلوکاروں کو خصوصی اسناد بھی دیں۔احمد رشدی کے لیے پاکستانی قومی ترانہ گانا ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔
احمد رشدی نے ریڈیو پاکستان پر بچوں کے گیت گانے شروع کیے جن میں سے یقیناََ ایک دو قومی نغمات اور بھی ہوں گے مگر اس زمانے میں ریکارڈنگ کی ذیادہ سہولیات میسر نہیں تھیں اسی لیے ذیادہ تر گانے براہِ راست نشر ہوکر ہی فضاء میں بکھر کر محلول ہوجاتے پھر کسی کے ذہنوں کے پردے میں بھی ان کے نقش نہیں اسی لیے حتمی طور پر ہم ان کے بارے میں کہنے سے قاصر ہیں، احمد رشدی کی صاف شفاف آواز کے باعث صرف دو برسوں ہی میں وہ فلمی دنیا کا حصہ بن گئے ،ریڈیو کے اسٹاف موسیقار استاد نتھو خان نے انہیں فلمی دنیا میں متعارف کروایا جس کی وجہ وہ ہمیشہ استاد نتھو خان کے معترف اور شکر گذار رہے،پہلی فلم انوکھی کے بعد ۱۹۵۶ء ہی میں فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ان کا پہلا فلمی قومی نغمہ’’جدھر قدم بڑھائیں گے۔۔۔جدھر نظر اٹھائیں گے‘‘ بھی شامل تھا جسے بیزار سرحدی نے تحریر کیا تھا جبکہ موسیقی استاد نتھو خان صاحب ہی کی تھی،اس قومی نغمہ میں احمد رشدی کا ساتھ ماضی کے فراموش کردہ گلوکار گلستان خان نے بھی دیا تھا۔ ۲۹ مارچ ۱۹۶۳ء کو ہدایتکار منور راشد کی فلم ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ ریلیز ہوئی تو اس میں حمایت علی شاعر کا تحریر کردہ قومی نغمہ ’’ہمت سے ہر قدم اٹھانا تو ہے پاکستانی‘‘ احمد رشدی ہی کے حصہ میں آیا،جس کی موسیقی سہیل رعنا نے ترتیب دی تھی۔احمد رشدی نے اس نغمہ کو اتنی خوبصورتی سے گایا کہ یہ اس عہد کا ایک مقبول قومی نغمہ بن گیا جس میں نونہالانِ وطن کے لیے ایک سبق بھی ہے اور ایک عزم بھی کہ :
ہمت سے ہر قدم اٹھانا تو ہے پاکستانی
تجھ سے ہی یہ ملک بنے گا دنیا میں لافانی
بادل تیرے دریا تیرے ،تیری ہر وادی
ہر قیمت میں باقی رکھنا اپنی آزادی
آزادی کی خاطر جینا آزادی کی خاطر مرنا
تیرا رکھوالا ہے اللہ،بگڑے کام بنائے مولا
بولو بچہ اللہ اللہ
اس نغمہ کے بعد ۱۸ دسمبر ۱۹۶۴ء کو فلمساز و ہدایتکار خلیل قیصر کی فلم ’’فرنگی‘‘ ریلیز ہوئی جو جذبہء حب الوطنی کے تناظر ہی میں بنائی گئی تھی ،اس فلم میں احمد رشدی نے ریاض شاہد کا تحریر کردہ نغمہ’’اے وطن اے وطن تیرے مرنے والوں کی خیر‘‘ گایا ،رشید عطرے کی طرز سازی میں یہ نغمہ دراصل آزادی کے ان شہیدوں کے نام تھا جو زندگی بنامِ وطن کرگئے،اس نغمہ میں احمد رشدی کا انداز مرثیانہ تھا اور سننے میں واقعی ایسا لگتا ہے کہ جیسے میدانِ جنگ کے بعد شہداء کے جسد اطہار کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے جنگ کے خون آلود دھوئیں کے ساتھ احمد رشدی آواز گونج رہی ہے۔
جنگِ ستمبر ہماری ملّی و قومی تاریخ کا اہم موڑ جب اٹھارا برس سے گھات لگائے غنیمِ جاں بھارت نے ۵ اور ۶ ستمبر کی درمیانی شب صبحِ کاذب کے وقت ارضِ پاکستان پر حملہ کردیا،یہ پاکستان کی چھوٹی سی نوجوان ریاست کے لیے ایک مرحلہ اورآزمائش کی گھڑی تھی،اس موقع پر پاک فوج کے ساتھ پوری قوم میدانِ عمل میں نکل آئی ،سخنوروں،مطربوں اور موسیقاروں نے بھی اس جنگ میں بھرپور حصہ لیا کہ وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک عظیم باب ہے،احمد رشدی جو ان دنوں کراچی میں ہی مقیم تھے دیگر فنکاروں کی طرح ریڈیو پاکستان کراچی جاپہنچے اور انہوں نے شاعروں کا کلام خوبصورت اور زرمیہ موسیقی کے ساتھ اس ناداز سے گایا کہ ہر ہر نغمہ ان کے دل کی آواز ثابت ہوا، جنگِ ستمبر میں ان کا پہلا نغمہ کشمیری حریت پسندوں کو خراجِ تحسین تھا جو کورس کی شکل میں گایا، عاشور کاظمی کے تحریر کردہ اس کلام کی موسیقی استاد نتھو خان نے ترتیب دی تھی ، نغمہ کو بول کشمیر میں جلتے چناروں کو پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ’’اے وادیء کشمیر۔۔۔اے وادیء کشمیر‘‘ ،اس نغمہ میں احمد رشدی کے ساتھ تاج ملتانی،عشرت جہاں،نگہت سیما اور نسیمہ شاہین شامل تھے۔ ۸ستمبر کو پاک بحریہ نے بھارت کا سب سے اہم اور مضبوط بحری مستقر دوارکا کی اینٹ سے اینٹ بجادی تو ۹ ستمبر کی صبح ہی استاد نتھو خان کی موسیقی میں جون ایلیا کا تحریر کردہ نغمہ احمد رشدی اور نگہت سیما کی آواز میں پاک بحریہ کو پہلا خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
’’فرمانروائے بحرِ عرب پاک بحریہ
بھارت میں تیرا نام ہے بے باک بحریہ‘‘
یہ سبز گیت اتنا دلکش اور جذبہء حب الوطنی سے پر ہے کہ سننے والا پاک بحریہ کے ان عظیم غازیوں کو دل سے سلام کیے بغیر نہیں رہ سکتا،نگہت سیما نے بھی اس نغمہ میں خوبصورت آواز کا جادو جگایا،واضح رہے کہ یہ نغمہ پاک بحریہ پر بننے والا سب سے پہلا قومی نغمہ ہے اس طرح احمد رشدی قومی نغمات کی ایک جہت میں سبقت لے گئے !، پاک فوج سرحدوں کی حفاظت میں مصروفِ عمل تھی کہ اس کا ہر سپاہی عقیدت کی نگاہوں سے دیکھا جاتاجہاں بھی کوئی سپاہی گذرتا لوگ عقیدت سے اس پر گل پاشی کرتے ،ہر نگاہوں اور دلوں میں ہر سپاہی کے لیے دعائیں امڈ آتیں ،اسی جذبے کے مدِ نظر احمد رشدی نے قتیل شفائی کا تحریر کردہ نغمہ
’’اے وطن کے جوانو!سلامت رہو،سلامت رہو
میں تمہارا مغنی تمہارے لیے،دل و جان سے کررہا ہوں دعا‘‘
گایا تو ہر زبان پر فوراََ ہی اس کا چرچہ ہوگیا،اسی طرح احمد رشدی کے ایک اور سبز گیت’’ہم ارضِ مقدس کے جری شیر جواں ہیں،ہم فخرِ جہاں فخرِ جہاں ہیں‘‘ کو بھی جنگ کے دوران مقبولیت ملی۔
جنگِ ستمبر میں غنیمِ جاں بھارت نے ارضِ پاک کے دو شہروں لاہور اور سیالکوٹ کو براہِ راست نشانہ بنایاتھا ،بلکہ بھارتی اخبارات اور اس کے ہمنوا مغربی میڈیا نے بھی لاہور کی فتح کی خبریں نشر کرنا شروع کردی تھیں کیونکہ ٹڈی دل بھارتی لاؤ لشکر کے سامنے لاہور کا فتح ہونا ایک معمولی سی بات لگتی تھی لیکن مشیتِ ایزدی کے باعث حقیقت کچھ اور ثابت ہوئی کہ راوی کی لہروں نے بھارتی فوج کو انہی کا لہو پلایا ،پاک سرزمیں کے غازیوں نے بھارتی فوج کے ہاتھوں لاہور کی فتح تو درکنار بی آربی نہر بھی عبور کرنے نہ دی،یہ جذبہ اسلامی غیرت اور حب الوطنی کا وہ اہم واقعہ ہے جس پر بہت سے شعراء نے خراجِ عقدیت کے لیے بہت کچھ تحریر کیا، رئیس امروہوی کے بھائی جون ایلیا نے بھی لاہور پر ایک خوبصورت کلام لکھا جس کو احمد رشدی نے نتھو خان کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا تو ہر سامعی کو اس نے ناصرف متوجہ کیا بلکہ دشمن کو بھی بتادیا کہ
’’لاہور سربلند ہے لاہور زندہ باد ۔۔۔لاہور فتحمند ہے لاہور زندہ باد
لاہور تو ہے عظمتِ پائندہ زندہ باد‘‘
لاہور کا نغمہء فاتحانہ جون ایلیا کو خود بھی بے حد پسند تھا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں میرا لاہور جانا ہوا تو ہر جگہ میرے اسی نغمہ کی دھوم نے میری محنت وصول کروادی تھی۔
لاہور کی دفاعی لائن سے تنگ آکر بھارت نے اپنی توپوں کا رخ ارضِ سیالکوٹ کی جانب کیا،جہاں چونڈہ کے میدان میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی بھی سامنے آئی،مگر بھارت نے یہاں بھی منہ کی کھائی،سیالکوٹ کے نشانِ جلال پر بھی ہمارے سخنوروں نے بہت کچھ لکھا،جناب حمید نسیم مرحوم کا تحریر کردہ نغمہ
’’تجھ سے تابندہ ہے دینِ محمدﷺ کی آبرو
سیالکوٹ حرمِ مرتبت ہے تو‘‘
احمد رشدی اور ساتھیوں نے ۱۸ ستمبر کو کراچی ریڈیو پر ریکارڈ کروایا،اس نغمہ کے موسیقار رفیق غزنوی تھے۔
سابق دارلحکومت اور شہرِ قائدؒ کراچی جس کو بھی بھارت نے اپنی فضائیہ کے ساتھ جارحیت کا نشانہ بنایا تھا یہ شہر بھی استقامت کی زندہ دلیل بن گیا،رئیس امروہوی نے کراچی کی استقامت پر بھی ایک خوبصورت اور جوشیلا قومی ترانہ’’اے کراچی مرحبا۔۔۔اے کراچی مرحبا‘‘ لکھا تو احمد نے رشدی ہی نے اس کو اپنی اونچے سر اورجوشیلی آواز میں امر کردیا،جنگِ ستمبر کا یہ سبز نغمہ جنگِ ۷۱ء میں اور بھی ذیادہ مقبول ہوا جب بھارت یہاں وقفے وقفے سے فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔
کلامِ اقبالؒ جس میں حکیم الامت نے ملتِ اسلامیہ کو پیغامِ حریت لے کر پیغامِ تصوف تک دیا ہے،ہماری قومی شاعری کا نمایاں حصہ ہے ،اقبالؒ کی غزل ہویا نظن تمام تر ملّی پیغام سے تعبیر ہے،جہادِ فی سبیل اللہ پر بھی اقبالؒ نے خوب اشعار کہے تھے،یہ نظمیں جنگِ ستمبر میں اور بھی کارآمد محسوس ہونا شروع ہوئیں تو گلوکاروں نے اس کو ترنم میں ڈھال کر ترانوں کی شکل بھی دی،احمد رشدی کے حصے میں دو کلامِ اقبالؒ آئے جن میں ’’ضربِ کلیم‘‘ سے منتخب کلام ’’مرد مسلماں‘‘ احمد رشدی نے ساتھیوں کے ساتھ بے حد جوشیلے انداز میں پڑھاکہ واقعی ’[ہر لحطہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‘‘ ہے ۔اسی طرح احمد رشدی کا دوسرا کلامِ اقبالؒ ’’آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش ۔۔۔اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی‘‘ بھی رزمیہ آہنگ سے معمور تھا۔
ریڈیو پاکستان کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر جناب سلیم گیلانی مرحوم کا تحریر کردہ نغمہ’’ہم گھبرو پاکستان کے،ہم شیروں کے سردار۔۔۔ہمیں دیکھ کہ دشمن بھاگیں جیسے بھیڑین بیچ بازار‘‘ بھی احمد رشدی کی آواز میں ایک پرجوش جنگی ترانہ تھا۔
جنگِ ستمبر کے جہادِ پاکستان میں پاک فوج کو روزانہ ایک قرآنی آیت Sword of the Day کے طور پر پیش کی جاتی جو لشکرِ اسلام کی وضاحت کرتی ہے، شاید اسی تناظر میں شعراء نے قرآنی آیات کو بھی اپنے رزمیہ ترانوں کا حصہ بنایا، ’’حسبنااللہ و نعم الوکیل۔۔۔اپنا حامی ہے رب جلیل‘‘ اور ’’نصرمن اللہ و فتح قریب۔۔۔اپنا نگہباں خدا کا حبیب ﷺ‘‘ قرآنی آیات سے سجے دو عسکری نغمات تھے جنہیں احمد رشدی نے گایا، نصیر ترابی کے تحریر کردہ پہلے نغمہ میں قرآنی آیتِ کریمہ کے ادب کے طور پر صرف اسی حصہ میں سازینے روک دیے گئے،اور جیسے ہی قرآنی آیت کا حصہ ختم ہوتا تو سازینے اٹھتے،یہ ایک منفرد انداز تھا اور جو اسلامی تقدس کو بھی ظاہر کرتا ہے،دوسرے نغمہ میں قرآنی آیت سے ’’ و ‘‘ کا حرف نکال دیا گیا تو وہ خالصتاََ قرآنی آیت نہیں رہی اسی لیے اس پورے نغمہ میں موسیقی شامل ہے۔ آخرالذکر ترانہ بھی جنگِ ۷۱ء میں مقبول رہا جس کو ضیاء جالندھری نے تحریر کیا جکہ موسیقی مظہر وکٹر کی تھی۔
جنگِ ستمبر کے دوران پاکستانی قومی نغمات میں اپنے عظیم مجاہدوں کو انفرادی طور پر بھی خراجِ تحسین و عقیدت پیش کرنے کی جہت کا آغاز ہوا تو شعراء نے میجر عزیز بھٹی شہیدؒ ، میجر عباسی شہید، میجر خادم حسین شہید وغیرہ پر اپنے قلم کی جولانیاں دکھائیں،جناب مظفر وارثی مرحوم نے پاک فضائیہ کے عظیم مجاہد اور غازی ایم ایم عالمؒ پر بہت خوبصورت کلام تحریر کیا جو ان کی شخصیت پر شائع شدہ واحد کلام بھی تھا ،احمد رشدی نے غازی ایم ایم عالم (جنہوں نے ۳۰ سیکنڈ میں پانچ بھارتی طیارے زمیں بوس کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا ) پر مظفر وارثی کا لکھا نغمہ گانے کا اعزاز حاصل کیا تو وہ بھی اس عظیم ہیرو کو واحد خراجِ تحسین پیش کرنے والے منفرد گلوکار ٹھہرے ۔۔۔!!۲۰ ستمبر ۱۹۶۵ء کو ریڈیو سے نشر ہونے والے اس نغمہ کے بول کچھ یوں تھے :
ناز ہے پاکستان کو تجھ پر اے مشرق کے لال
اے شیر بنگال۔۔۔
راہ بنی قدموں کی تیرے کہکشاں سیارے
آدھے منٹ میں گرائے تو نے پانچ پانچ طیارے
دنیا پکاری عالم تو ہے اپنی آپ مثال
اے شیر بنگال۔۔۔
راقم الحروف نے یہ نغمہ اپنے عظیم مجاہد ایم ایم عالم کو سنایا تو وہ بھی اشکبار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ ’’اللہ شاعر اور مطرب اور دونوں ہی کو جنت میں جگہ عطاء فرمائے جنہوں نے میرے اسلام کے لیے کارنامہ کو نغمہ کی صورت میں بھی محفوط کیا‘‘۔
وطن کے شاعروں اور فنکاروں کا بھارت کو جواب بھی احمد رشدی نے رئیس امروہوی کے الفاظ میں بشکلِ ترانہ یوں دیا کہ
’’سرکشی ہے جنگ آمادہ تو پھر یوں ہی سہی
خوں اگر مضموں کی سرخی ہے تو پھر خوں ہی سہی
فکر کو انداز کا لہجہ بدلنا ہی پڑا
آج ہم شیریں لبوں کو زہر اگلنا ہی پرا‘‘
نصیر ترابی صاحب کا ترانہ ’’میری سرحد کو میرا میرا لہو چاہئے ۔۔۔میرے کھیتوں کو میری نمو چاہیے‘‘ بھی احمد رشدی کی آواز میں ایک یادگار اور پر فکر نغمہء وطن ہے جس کی طرز سازی لعل محمد نے کی۔اسی طرح ’’اے ارضِ وطن تیرے جواں تیرے دلاور ۔۔۔میدان میں نکلیں ہیں کفن باندھ کے سر پر ‘‘ بھی محاذ پر صف آراء فوجی جوانوں کے دلوں میں ملّی جذبات ابھارتا رہا۔
احمد رشدی جو فلم انڈسٹری میں شوخ و چنچل اور مزاحیہ گانوں کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے ان کی شخصیت کو دیکھ کر ہی شاید ہمارے قومی نغمات میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا کہ دشمنِ وطن بھارت پر طنزیہ نغمات بھی بننے لگے ،احمد رشدی نے جنگِ ستمبر کے موقع ۳ طنزیہ قومی نغمات گائے،جو مزاح کے ساتھ ساتھ حقیقت کی ترجمانی بھی کرتے ہیں، سلیم گیلانی کا تحریر کردہ نغمہ’’ لالا جی جان دیو لڑنا کی جانو تسی مرلی بجاون والیو گل تہاڈی وسدی نئیں‘‘ احمد رشدی کا پہلا مزاح سے بھرپور قومی نغمہ ہے جس میں بھارتی ننکو وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری کو لالا جی کہہ کر جنگ میں ہندوستان کا آئینہ دکھایا گیا ہے،یہ احمد رشدی کا پہلا پنجابی قومی گیت بھی تھا،اس نغمہ کی موسیقی کے خالق استاد نتھو خان تھے جبکہ کورس میں نسیمہ شاہین کی آواز نمایاں ہے، اسی طرح لعل محمد کی موسیقی میں سلیم گیلانی ہی کا تحریر کردہ نغمہ’’ آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔۔۔ہم اگرعرض کریں گے تو شکایت ہوگی‘‘ ایکبھارتی فلمی گانے کی پیروڈی ہے جو قوالیہ انداز میں احمدرشدی اور ہمنواؤں نے خوبصورتی سے گایا ہے، اس سبز گیت میں احمد رشدی اپنے روایتی شوخ و چنچل انداز میں نظر آتے ہوئے ’’ر‘‘ پر زور دیتے ہیں کہ
’’کھل گئیں آنکھیں مسلمانوں سے لئے کر ٹکر (رررررر )
بھارتی سینا کو آنے لگے پیہم چکر (رررر) ‘‘
نیز اس نغمہ میں احمد رشدی نے گانے کے ساتھ ساتھ تخاطبی انداز اختیار کیا ہے جو قدیم قوالی میں ہوتا تھا کہ سننے والا اسے اشعار نہیں بلکہ خطاب کے طور پر لے کر متوجہ بھی رہتا ، یہی احمد رشدی کاکمال ہے۔اصغر حسین کا تحریر کردہ تیسرا طنزیہ قومی نغمہ ’’ دوڑیو باپو بھارت دیش کی ہوگئی جگت ہنسائی۔۔۔دوڑیو چاچا اب تو مچ گئی گھر گھر رام دہائی‘‘ بھی جنگِ ستمبر میں بھارت کی حقیقت بتانے والا ایک خوبصورت اور یادگار نغمہ ہے ،اس طرح احمد رشدی قومی نغمات کی اس جہت میں بھی سبقت لے گئے !!
۱۷ دن توپ و تفنگ کی گھن گھرج کے بعد جنگ بند ہو تو گئی مگر عسکری ترانوں کا سلسلہ جاری رہا جو آج بھی جاری ہے،پہلی بار قوم نے غازیانہ کارناموں کی نغمات کی صورت میں اہمیت جانی، اس کا واضح اثر جنگِ ۷۱ ء تک ذیادہ نظر آتا ہے کہ ہر قومی نغمہ جہاد و مجاہد کا ترجمان تھا۔
جنگ کے بعد ۷۱ء تک احمد رشدی نے ریڈیو پاکستان سے یہ قومی نغمات ریکارڈ کروائے :
(ساتھیو ! سبز پرچم اراتے چلو زندگی کے ترانے سناتے چلو ( معہ سلیم رضا ، شاعر : حمایت علی شاعر،موسیقی : خلیل احمد
(سوئے منزل چلے اور بہ یک دل چلے آج سب من چلے ( معہ سلیم رضا ، شاعر : حمایت علی شاعر، موسیقی : خلیل احمد
(ہماراسبز پرچم ہے ہلالی جھک نہیں سکتا ( معہ ہمنوا
(میرا پیغام پاکستان ( شاعر : جمیل الدین عالی، موسیقی : نذر حسین
(یہ وطن یہ چمن اس پر سب کچھ فدا اپنا تن اپنا من ( شاعر :حمید نسیم
رشکِ خلدِ بریں ہے وطن کی زمیں
اس کے علاوہ پاک فوج نے مارچ پاسٹ کے لیے ایک نغمہ ’’ہم ہیں تیغِ حیدریؓ ہماری ضرب سے ڈرو‘‘ بنایا تو اس میں بھی احمد رشدی کو شامل کیا گیا۔
جنگِ ستمبر کے بعد فلم انڈسٹری نے جہادِ پاکستان کے موضوع پر بھی فلمیں بنانا شروع کیں تو اس میں بھی جنگی و قومی ترانوں کی شمولیت ناگزیر تھی،۲۴ جنوری ۱۹۶۶ء کو فلمساز نیازی ملک کی فلم آزادی یا موت ریلیز ہوئی تو اس کا ٹائٹل ترانہ احمد رشدی ہی کی آواز میں تھا کہ’’ شیروں کا وہ نعرہ گونجا آزادی یا موت۔۔۔ حبِ وطن کا شعلہ جاگا آزادی یا موت‘‘ لعل محمداقبال کی موسیقی سے سجا صہبا اختر کا یہ ترانہ احمد رشدی نے جنگ کے دوران ریڈیو پر ہی ریکارڈ کروایا تھا مگر فلم میں شامل ہونے بعد ذیادہ مقبول ہوا تاہم جنگِ ستمبر کی یادگار فوٹیجز سے بھرپور یہ فلم ہٹ نہ ہوسکی !
فلمساز فاضلانی کی فلم استادوں کے استاد جو ۴ اگست ۱۹۶۷ء کو ریلیز ہوئی اس ا میں عاجز فریدی کا تحریر کردہ بچوں کے لیے قومی نغمہ ’’ الف سے اللہ ب بسم اللہ پ سے پاکستان ‘‘جس کی موسیقی غلام علی نے دی تھی احمد رشدی نے گایا۔ اسی طرز پر ایک اور قومی نغمہ مسرور زیدی کے الفاظ اور نذر صابر کی موسیقی کے ساتھ۱۹۶۹ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’السلام علیکم ‘‘ میں بھی ہے جس کے بول کچھ یوں ہیں
’’ الف سے اپنا ب سے پہتر پ سے پاکستان
پاکستان کی خاطر بچوں جان و دل قربان‘‘
بچوں کے لیے ایک اور قومی نغمہ جس میں عسکری رنگ غالب ہے فلم ’’شکوہ نہ کر ‘‘ میں بھی شامل ہے لیکن یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی،اس فلم میں احمد رشدی،نسیمہ شاہیں کے ساتھ قوم کے نونہالوں کو پیغام دیتے ہیں کہ
’’وطن کے لال نونہال مسکرا کے چل۔۔۔تو وقت سپاہی سے قدم ملا کے چل‘‘
۱۹۶۸ء فلم تاج محل میں بھی وطنِ عزیز کی خوشیوں پر احمد رشدی کے ساتھ نجمہ نیازی اور آئرین پروین کا ایک نغمہ’’آیا خوشیوں کا رنگین زمانہ‘‘ شامل تھا جس میں پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتیں اپنی خوشحالی کے گیت گاتی ہیں،کلیم عثمانی کے تحریر کردہ اس نغمہ کو جناب نثار بزمی طرز میں ڈھالا تھا۔
فلم آنکھ اور خون جو ریلیز نہ ہوسکی اس میں بھی احمد رشدی نے ’’بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ کا تسلسل ’’پاکستان میں کراچی جیسے پان میں الائچی۔۔۔گانا سن تو گاڑی بان کا‘‘ گایا اور کیماڑی پہنچانے کی بجائے اب انہوں نے سامعین کو میری ویدر ٹاور سے گھماکر کلفٹن پہنچا دیا ۔
مشرقی پاکستان کے فلمساز احتشام کی فلم نادان جو ۱۵ اگست ۱۹۶۹ء کو ریلیز ہوئی ،اس میں احمد رشدی اور ساتھیوں نے پہلی بار پاک وطن کے دہقانوں کی قومی اہمیت قومی نغمہ میں بتائی،
دھان بوئیں دھان جھک جھک کسان
ہاتھوں میں ہل دل میں قرآن
یہ منفرد قومی نغمہ جناباختر یوسف نے لکھا جبکہ اس کی موسیقی علی حسین نے ترتیب دی،اس نغمہ کو اداکار ندیم پر فلمایا گیا تھا۔محنت کش ،ہاری، مزدور، ماہی گیر چونکہ وطنِ پاک کی ترقی کا ضامن ہوتے ہیں اور ملکی تجارت کا اہم حصہ ہوتے ہیں اسی لیے ان پر بنائے گئے نغمات جن میں قومی جذبہ شامل ہو قومی نغمات ہی کہلاتے ہیں،فلم اناڑی سے قبل وحید مراد کی فلم ’’سمندر‘‘ میں بھی احمد رشدی نے دیبو بھٹ اچاریہ کی موسیقی میں ’’تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر ‘‘ گایا تو وہ نغمہ فوجی نغمات کی طرح ہٹ ہوا،اس طرح ہمارے قومی نغمات میں محنت کشوں کے لیے خصوصی نغمات کا بھی آغاز ہوا جس کے اثرات ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ذیادہ نظر آتے ہیں۔
۱۹۷۰ء میں فلمساز شیخ عبدالرشید اور ہدایتکار جمیل اختر کی فلم’’لو انِ یورپ‘‘ بنی مگر وہ پردہٗ سیمیں پر نہ آسکی تاہم اس کے ریکارڈ ضرور بنے جس میں احمد رشدی کے مسعود رانا کے ساتھ دو قومی نغمات
سن لے دنیا یہ للکار،ہم ہیں پھول کبھی تلوار
ہم سارا یورپ گھومے،لندن کی گلیاں دیکھیں ،ساری رنگ رلیاں دیکھیں
شامل تھے، ان نغمات کو جناب تنویر نقوی نے تحریر کیا جبکہ موسیقی منظور اشرف کی تھی۔
جنوری ۱۹۷۲ء میں انہی فلمساز اور ہدایتکار کی پنجابی فلم’’جاپانی گڈی‘‘ ریلیز ہوئی تو اس میں بھی احمد رشدی نے دو نغماتِ وطن گائے جو کچھ اس طرح تھے :
نئیں ریساں پاکستان دیاں
میم بلیے پاکستان چلیے
یہ دونوں نغمات نیم قومی نغمات تھے جن میں ایک جاپانی خاتون کو پاکستان کی بابت بتایا جاتا ہے،موخر الذکر نغمہ میں پاکستان کے شہر کراچی،لاہور،پشاور اور ڈھاکہ کی ثقافت بھی بتائی گئی ہے۔ یہ نغمات بھی تنویر نقوی اور ماسٹر منظور اشرف ہی کی شاعری اور موسیقی سے سجے تھے۔
۷۰ء کی دہائی ارض پاکستان کے لیے بے حد نحس ثابت ہوئی جب ہمارا مشرقی بازو سازشون کے تحت ہم سے جدا ہوگیا جس کا دکھ آج بھی ہر پاکستانی کو ہے، جنگِ ستمبر کا زخم کھائے بیٹھے غنیمِ جاں بھارت نے ۶ سال بعد پھر مملکتِ خدادادِ پاکستان پر ناپاک عزائم کے ساتھ حملہ کیا تو ایک بار پھر قوم متحد تھی،عوام مین وہی جذبات تھے مگر حکمران اب وطن دوست نہیں بلکہ وطن دشمنوں کی طرح نظر آتے تھے جن کی کوتایہوں سے عظیم سانحہ رونما ہوا جو ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا محسوس ہوتا ہے،تاہم پاک فوج ،عوام اور فنکاروں سب ہی نے وطنِ پاک کی محبت میں اسی جذبے کو تیازہ کیا،ااو ایک بار پھر عسکری و قومی ترانے ملک کی فضاؤں میں بکھرنے لگے۔احمد رشدی جو ان دنوں بھی کراچی میں مقیم تھے وطنِ عزیز کی خدمت کے لیے فوراََ ریڈیو پاکستان پہنچے اور قومی نغمات ریکارڈ کروائے،سب سے پہلا نغمہ انہوں نے ’’میداں میں نکلے شیرانِ حیدرؓ ۔۔۔ہاتھوں میں تسبیح تکبیر لب پر،اللہ اکبر اللہ اکبر ‘‘ ریکارڈ کروایاجسے سلیم گیلانی نے تحریر کیا تھا،میدانِ کارزار مشرقی اور مغربی پاکستان میں گرم تھا اسی لیے ترانوں میں گھمسان کی لڑائی میں پاک مجاہدین کے لیے احمد رشدی ترانوں کی شکل میں یوں کہتے نظر آتے ہیں
میداں لہو لہو ہے فضاء لالہ رنگ ہے،یہ حق کی جنگ ہے یہ حق کی جنگ ہے‘‘ ( یہ نغمہ ستمبر ۵۶ میں بھی احمد رشدی ہی نے گایا تھا’’
"جنگ ہے،جنگ ہے، جنگ ہے"
’’ یہ فیصلہ ہے ہمارا کہ اب سرِ میداں شرارِ قوتِ باطل بجھا دیا جائے‘‘ (شاعر : رئیس فروغ )
شہدائے پاکستان کے لیے احمد رشدی ضیاء جالندھری کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر پرسوز آواز میں کہتے ہیں کہ
’’اے خدائے ذوالجلال،تیرے حکم سے تیرے شہید لازوال‘‘
اس نغمہ میں حمد رشدی کی آواز بھری ہوئی ہے جو سننے والے واضح محسوس کرسکتے ہیں، یہ نغمہ محشر بدایونی کے قلم کا شاہکار ہے جبکہ مظہر وکٹر نے اسے نغمہ کے قالب میں ڈھالا
مشرقی پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے احمد رشدی اور بشیر احمد نے دو ترانے
’’سلام اے ڈھاکا و چاٹگام کے غازی نگہبانو! سلام اے سلہٹ و جیسور کی مضبوط دیوارو!‘‘ ( معہ بشیر احمد ،شاعر : مظفر وارثی ، موسیقار : لعل محمد )
اور ’’ یہ دیس ہے بنگال ہمارا‘‘ (معہ بشیر احمد ، شاعر :ابو سعید قریشی، موسیقی : لعل محمد )
بھی ریکارڈ کروائے جو ہمارے سابق حصے کی ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے۔
جنگِ ۷۱ء میں جو ہوا سو ہوا ، قوم ایک بار پھر میدانِ عمل میں آچکی تھی جو دراصل زندہ قوم کی نشانی ہوتی ہے،مگر اب تھوڑا انداز بدلہ اب محنت کش اور مزدور سب ہی اس جذبے کے ساتھ کھیت اور مشینیں سنبھال رہے تھے کہ ہمیں جنگ کارخانوں اور کھلیانوں میں لڑنی ہے،اسی لیے قومی نغمات میں یہ عہد اور جذبہ واضح ہونے لگا، پہلے صرف پاک فوج کے مجاہدین پرہی نغمات بن رہے تھے اب مزدوروں اور ہاریوں پر بھی بننے لگے، ان قومی نغمات کو سلیم گیلانی صاحب نے روشنی کے گیت کا نام دیا،احمد رشدی جنہوں نے سقوطِ دکن بھی دیکھا تھا وہ سقوطِ ڈھاکہ سے ضرور رنجیدہ ہوئے ہوں گے،اس لیے انہوں نے نئے دور میں بھی اپنا صوتی اور سنگیتی محاذ سنبھالا اور یہ سبز نغمات نذرِ وطن کیے
(مل کر تیز چلاؤ پہیے اور بڑھے جھنکار ( شاعر : سلیم گیلانی ، موسیقی : مہدی ظہیر
(میرے ملک و ملت کے محنت کشو! ( شاعر : سلیم گیلانی ، موسیقی:مہدی ظہیر
اپنے گھر کی چاروں جانب خوشبو کی دیوا بنانا
زمیں پہ چاند تارہ بن کے دنیا جگمگا دیں گے
ماں کی گود وطن کی دھرتی اس دھرتی سے پیار کرو
احمد رشدی نے ۷۰ کی دہائی میں پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے ۳ قومی نغمات بھی گائے جو آج تک مقبول ہیں۔ فلم دشمن میں ’’اپنی محنت اپنے بازو سوہنی دھرتی کے نام‘‘ احمد رشدی نے روبینہ بدر کے ساتھ گایا، فلم’’نادان‘‘ جو ۲۲ فروری ۷۳ء کو ریلیز ہوئی اس میں ایک انوکھا قومی نغمہ’’ سدا سہاگن اپنی دھرتی سو سو چھب دکھلائے،اپنی دھرتی پہ بھیا بہار آئے‘‘ جسے دکھی پریم نگری نے لکھ کر لعل محمد اقبال کی موسیقی کے حوالے کیا ،احمد رشدی نے بے حد خوبصورت انداز میں گایا۔جون ۱۹۷۲ء کو فلمساز سعود کمال کی فلم ’’آخری حملہ‘‘ میں ایک دعائیہ قومی نغمہ ’’اللہ میرے کریو کرم کا پھیرا ‘‘ جس کی طرز نگاری لعل محمد اقبال کی تھی احمد رشدی کی آواز میں ایک ہاری کے دل کی عکاسی کرتا ہے، اسی طرح فلم ’’آئینہ اور صورت ‘‘ جو ۲۸ جون ۱۹۷۴ء کو ریلیز ہوئی اس میں بھی احمد رشدی نے رونا لیلیٰ کے ساتھ پوربی زبان میں ایک منفرد قومی نغمہ’’ پاک وطن کی دھرتی پیاری ہمکا اپنی جان سے پیاری ،ہو پھول گلبوا جیسے ‘‘گایا جو اس شوخ گلوکار کی آواز او ر انداز کی بدولت بہت مقبول ہوا۔
احمد رشدی فلمی گیتوں کے ساتھ ساتھ قومی نغمات کے ایک باکمال قومی گلوکار تھے جن کو یہ اعزازحاصل تھا کہ انہوں نے سب سے ذیادہ قومی نغمات نذرِ وطن کیے ہیں تاہم اب یہ ریکارڈ فی الحال غلام عباس کے پاس ہے،لیکن احمد رشدی کو یہ اولیت ہمیشہ حاصل رہے گی کہ سب سے پہلے انہوں نے ہی قومی نغمات کا نصف سینکڑا پورا کیا۔
سید احمد رشدی جنہوں نے ۱۹۵۴ء میں ریڈیو پاکستان سے ہی اپنی پیشہورانی گلوکاری کا آغاز کیا تھا آخر میں گلے کے کینسر کے باعث جب فلم انڈسٹری سے کنارہ کش ہوگئے تو طبیعت سنبھلنےکے بعد ایک بار پھر ریڈیو کا رخ کیا جہاں وہی مائیکروفون ان کا منتظر تھا، اب کی بار انہوں نے قومی نغمات ہی کو اپنی شناخت کے طور پر منوالیا اور انہوں نے پاک فوج کے لیے نغمہ’’اپنی فوج کی دیکھو شان‘‘ ریکارڈ کروایا جو جو جنرل ضیاء الحق شہید کے دور میں پریڈ کے بعد ریڈیو سے نشر ہوتا تھا،احمد رشدی نے قومی نغمہ کے ذریعے ہی اپنی گلوکاری کا آغاز کیا تھا، لہذا وہ اب ایک ایسا قومی نغمہ ریکارڈ کروانا چاہتے تھے جو ہر پاکستانی کے دل میں پیغامِ احمد رشدی ثابت ہو،پروفیسر آذر حفیظ جو ان کے دوست تھے ملنے آئے تو انہوں نے اپنا کلام دکھایا احمد رشدی پہلے اس کلام کو لے کر پی ٹی وی گئے جہاں پالیسی کے بہانے کی نذر ہوا تو وہ ریڈیو آگئے اور اگست ۱۹۸۲ء میں اپنے کیریئر کا آخری نغمہ جو قومی نغمہ ہی تھا ریکارڈ کروایا ،سننے والوں نے سنا تو وہ بھی اشکبار ہوئے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ یہ صرف نغمہ نہیں بلکہ ایک عظیم فنکار کے دل کی آواز تھا جو نسلِ آئندہ کو اپنا پیگام دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ
’’آنے والو! سنو میرے پیارو! سنو
ہم نہ ہوں گے مگر ہوگی روحِ سفر
چٹاں خونچکاں ظلم کی داستاں
کتنی قربانیاں دے کر حاصل ہوئی
وطن کی زمین اب جو منزل ہوئی
میرے پیارو ! سنو تم بھلانا نہیں
جو ملا ہم کو فن ،کرکے نذرِ وطن
اپنی آواز سے رس بھرے ساز سے
ہے دلوں کی خوشی،آنکھ کو روشنی
ہم اسی کے لیے جان لٹاتے رہے
گیت گاتے رہے
اس سے الفت کرو،تم بھی خدمت کرو
ہم نہ ہوں گے مگر ہو گی روحِ سفر‘‘
یہ نغمہ احمد رشدی کا آکری نغمہ ثابت ہوا ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے گلوکار کو اپنی زندگی کا خود اندازہ ہوچکا تھا، چنانچہ ۱۱ اپریل ۱۹۸۳ء کو پاکستان کا یہ عظیم فنکار اپنا پیغام دے کر ہم سے جدا ہوگیا لیکن اس کی آواز اور قوم کے لیے نغمات کی شکل میں پر خلوص پیغامات اور حوصلہ مندی کے جذبات ہمیشہ پاک وطن کی فضاؤں میں گونتے رہیں گے، احمد رشدی مرحوم نے قومی نغمات کی ہر جہت یعنی پاک فوج،بحریہ،کشیر،پرچم،کلامِ اقبال، محنت کشی،حوصلہ مندی،زمین اور مٹی سب ہی پر قومی نغمات گاگر منفرد اعزاز حاصل کیا۔قومی نغموں کی تعداد اوران کی تاثیر دیکھ کر ہم بلاشبہ احمد رشدی کو پاکستانی قومی نغمات کا پہلا بادشاہ کہہ سکتے ہیں، جب تک پاکستان اور پاکستانی موسیقی باقی ہے قومی نغمات کے ضمن میں اس کثیر الجہتی گلوکار کا نام ہمیشہ تاباں رہے گا۔