Patriotic Songs of Munawar Sultana ( Archive : Absar Ahmed )
Rare Patriotic Songs of Munawar Sultana
Chand Roshan Chamakta Sitara rahe
Apne Des wich
Millat ka Pasban
Millat hai Fauj
Allah Allah Hosla Aye Quaid e Azam tera
Aye Quaid e Azam Tera Ehsan hai
Rare Patriotic Songs / Milli Naghmay of Saleem Raza ( 1965 War for Radio...
Rare Patriotic Songs of Saleem Raza
Sialkot Tu Zinda rahe ga by Saleem Raza
Sialkot Tum ko Mera Salam by Slaeem Raza
Tariq Ik Jarnail Hamara by Saleem Raza
Ghaazi Pakistan dayan by Saleem Raza
Tufanon se Takranay ka waqt aya by Saleem Raza
and Others with Munir Hussain & Fazal Hussain
Arz-e-Pakistan Tere Jan Nisaron ko Salam ( Pak Army Song - PTV ) by Absa...
Arz-e-Pakistan Tere Jan Nisaron ko Salam
Poet : Absar Ahmed
Singer :A li Akhter
Official Song of Defense day Golden Jubilee PTV
Deen Zameen Samundar - Yeh Hai Pakistan ( Rare Milli Naghma )
Deen Zameen Samundar Darya Sehra Kohistan
Sab ke liye Sab kuch hai is mai
Yeh Hai Pakistan
Yeh hai Pakistan
Singer : Mona & Iqbal
Poet : Jameel-ud-Din Aali
Music : Sohail Rana
In the Remembrance of East Pakistan - Patriotic Songs ( Absar Ahmed )
Patriotic Songs of East Pakistan
Aao Chalen Us Paar Manjhi
Shehar-e-Dhakka Ba Khuda Azm ki Tasveer
Mashriqi Bengal ke Aatish Bajanon ko Salam
Jab Tak Rahe ga Padma mai Pani
Yeh Bangali Yeh Sindhi Punjabi aur Pathan
Jaag Raha hai Pakistan ( Jangi Milli Tarana - 1965 War )
Apni Quwat Apni Jan
La Ilaha Illallah Muhammad-ur-Rasool Allah
Har Pal Har Saat har Aan
Jaag Raha hai Pakistan
( Rare Video of Paakistan Television - PTV )
Muhammad Bin Qasim (Ra) - Unique Information ( Talib-e-Ilm ki Diary )
طالبِ علم کی ڈائری
موضوع : محمد بن قاسمؒ
تحریر و آواز : ابصار احمد
ریڈیو پاکستان کراچی
Air Commodore Ghazi M.M.Alam ( Talib-e-Ilm ki Diary ) Radio Pakistan
طالبِ علم کی ڈائری
موضوع : غازی ایم ایم عالمؒ
تحریر و آواز : ابصار احمد
ریڈیو پاکستان کراچی
Ye Barish, Ye Thandi Hawa
Ye Barish, Ye Thandi Hawa, Aur Ye Khushgawaar Mausam,
Hum Ager Majboor Na Hote To Tere Paas Hote.....!
History of Pakistani National Songs ( Part 2 )
قومی نغمات کی مختصر تاریخ
قسط : ۲
تحریر : ابصار احمد
کراچی جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا یہاں سرکاری ریڈیو نے تیزی سے ترقی شروع کی جس کی وجہ یہاں اہلِ علم و فن کا تیزی سے آباد ہونا تھا ، کراچی ریڈیو کے پاس ابتداء میں کوئی نمایاں توگلوکار نہیں تھے جنہیں پیشہ ورانہ گلوکاری کی مہارت حاصل ہو لیکن جلد ہی یہاں سے خوبصورت آوازیں ابھرنا شروع ہوئیں جن میں احمد رشدی ، رشیدہ بیگم ، ایس بی جان ، خورشید بیگم ، نجم آرا, زوار حسین ، کوکب جہاں ، کجّن بیگم زوار حسین ، کوکب جہاں ، کجّن بیگم اورنسیمہ شاہین وغیرہ کے نام شامل ہیں جبکہ نہال عبداللہ ، پنڈت غلام قادر ، مہدی ظہیر اور رفیق غزنوی جیسے موسیقاروں کی موجودگی اس ادارے کے نو آموز فنکاروں کے لیے کافی تھی، کراچی ریڈیو میں چونکہ ریکارڈنگ کی سہولیات میسر نہیں تھی اسی لیے یہاں بھی گلوکار براہِ راست ہی دیگر گیتوں کی طرح قومی نغمات بھی گاتے ، سجاد سرور نیازی ( والد ناہید نیازی ) جو پشاور کی طرح یہاں کے پہلے اسٹیشن ڈائریکٹر تھے انہوں نے قومی نغمات کے ضمن میں توجہ دی لیکن چونکہ اس وقت ریڈیو کے تمام اسٹیشنز کا دورانیہ کم تھا اور صرف ۸ گھنٹے کی نشریات جس میں خبریں ، حالاتِ حاضرہ کے ساتھ ساتھ ہر جہت کے پروگرامز ہوں ان میں موسیقی کا وقت کہاں بچتا ہوگا مگر پھر بھی عوام میں ریڈیو کی مقبولیت کی وجہ فلمی گانے اور گیت ہی تھے ، اب جبکہ اس وقت بھارتی گانے بھی ریڈیو سے نشر ہوتے تھے تو یہاں کے گلوکاروں کے آئٹمز بھی ریڈیو کی ضروریات کے لیے ہی ریکارڈ ہوتے تو ان میں قومی نغمات کی تعداد صرف گنتی ہی کی ہوسکتی تھی ، ریڈیو پاکستان کے شمارے آہنگ ( اگست ۱۹۵۰ ) کے مطابق یومِ آزادی پر ریڈیو اسٹیشنز سے قومی نغمات کا پروگرام صرف ۲۰ منٹس پر مشتمل تھا جن میں گراموفوگراموفون ریکارڈز سے قومی نغمات نشر کیے گئے ۔
1948 میں جب بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے قوم کو سوگوار چھوڑا تو اس قومی سوگ کے موقع پر کراچی ریڈیو نے شیر محمد باتش کی آواز میں تنویز نقوی کا تحریر کردہ ایک خصوصی مرثیہ تیار کیا جو حزنیہ دھن میں صرف اسی دن ہی نشر ہوا جس کے بول کچھ یوں تھے :
"السلام اے فاطمہ کے دیدہ پرنم سلام
السلام اے غریبوں کے قائدِ اعظم سلام "
یہ مرثیہ قائدِ اعظمؒ کی تدفین کے فوراََ بعد نشر ہوا، اسی طرح لاہور ریڈیو نے بھی قائدؒ کے حضور ایک شاندار خراجِ تحسین عبدالشکور بیدل اور ساتھیوں کی آواز میں تیار کیا جو قائدِ اعظمؒ کی وفات پر ملکِ پاکستان کے لیے دعا تھی جو کچھ اس طرح تھی کہ
" ملت سے جدا ہوگئے ہیں قائدِ اعظم
لیکن رہے سدا بلند ان کا یہ پرچم
آمین ، آمین سب کہو آمین "
ابتدائی زمانے میں ۲۵ دسمبر کو منور سلطانہ اور علی بخش ظہور کے ترانے تمام اسٹیشنز سے گونجتے جو انہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل ریکارڈ کرائے تھے جنہیں میاں بشیر احمد نے تحریر کیا ۔ ریڈیو لاہور نے بعد میں مغنیہ نسیم اختر کی آواز میں قائدِ اعظم کے حضور ایک خوبصورت نذرانہ " نچھاور تم پہ جان و دل ہمارے قائدِ اعظم " تیار کیا تھا ، اسی طرح منور سلطانہ بھی لاہور سے فیاض ہاشمی کے الفاظ میں عظیم قائد کی ہمت اور حوصلہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ " اللہ حوصلہ اے قائدِ اعظمؒ تیرا
نذرِقائدِ اعظمؒ کے ساتھ ساتھ ابتدائی زمانے کے دیگر قومی نغمات لاہور ریڈیو سے دلشاد بیگم کا نغمہ " پاکستان کا گلشن آباد ہوا، دلشاد ہوا " بے حد مقبول تھا جسے فیاض ہاشمی نے تحریر کیا جبکہ منور سلطانہ کی آواز میں " ساڈا دیس اے پاکستان نی" بھی ہر فرد کی زبان پر تھا ۔ ریڈیو پاکستان پشاور سے دستیابی معلومات کے مطابق ایم قاسم نامی ایک گلوکار نے کلامِ اقبالؒ ریکارڈ کرائے جو " یارب دل، مسلم کو وہ زندہ تمنا دے " اور " چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا " پر مشتمل تھے
قومی نغمات کے ضمن میں پاکستان فلم انڈسٹری نے بھی اہم کردار ادا کیا ، پاکستان میں مکمل طور پر تیار ہونے والی پہلی فلم " شاہدہ" (1949 ) میں بھی ایک قومی نغمہ " الوداع الوداع پیارے وطن لو الوداع " شامل تھا جسے حکیم احمد شجاع کے الفاظ میں منور سلطانہ نے گایا جبکہ اس کی موسیقی ترتیب دی تھی غلام احمد چشتی صاحب نے ، لیکن یہ نغمہ قومی جوش کی بجائے دراصل ہجرت پر مبنی تھا اسی لیے ریڈیو پر مہاجرین کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ روزانہ نشر ہوتا بلکہ مہاجرین کی آبادکاری کے پروگرام " تعمیرِ وطن" کا یہ لازمی حصہ تھا ، اسی طرح 1954 کوکراچی کی پہلی فلم " ہماری زبان " میں نذیر بیگم نے قومی زبان پر ایک نغمہ " ہماری زبان اردو پیاری زبان اردو" ریکارڈ کرایا جسے غلام نبی عبداللطیف کی موسیقی میں عطاء محمد نے تحریر کیا ، ۱۹۵۵ میں فلم شرارے میں بھی دو قومی نغمات شامل تھے جنہیں عنایت حسین بھٹی اور پکھراج پپّو نے مشترکہ طور پر گایا ، فیروز نطامی کی موسیقی میں تنویر نقوی کے تحریر کردہ نغمات کے بول یہ تھے :
۱) ہمت والے او متوالے
۲) او سفینہ ڈوبے نہ
فلم کارنامہ جس میں احمد رشدی نے پہلی بار فلمی گلوکاری کا مظاہرہ کیا اس میں بھی احمد رشدی کا پہلا فلمی گیت قومی نغمہ ہی تھا جو انہوں نے گلستان خان کے ساتھ استاد نتھو خان کی موسیقی میں گایا ، نغمہ کا مکھڑا کچھ یوں ہے " جدھر نظر اٹھائیں گے ، جدھر قدم بڑھائیں گے ۔۔۔۔ ہم منزلوں کو پائیں گے "
فلم " بڑا آدمی " ( ۱۹۵۵ ) میں بھی نذیر بیگم اور ساتھیوں کی آوازوں میں غلام نبی عبداللطیف کی موسیقی اور کلیم عثمانی کا تحریر کردہ قومی نغمہ " اپنے لہو کا کا رنگ گلوں میں رچائیں گے ، اے ارضِ پاک تجھ کو جنت بنائیں گے" بھی شامل تھا جو کراچی ریڈیو سے بھی بے حد مقبول ہوا ۔
پاکستانی قومی نغمات کی داستان میں قومی ترانہ ایک اہم باب ہے جو کراچی ریڈیو پر تیار ہوا اس کا ذکر ءانشاء اللہ اگلی قسط میں ہوگا .
#HistoryOfNationalSongs #MilliNaghmay #QaumiNaghmay #Tareekh #MunawarSultana
History of Pakistani National Songs ( Part 1 )
(قومی نغمات کی مختصرتاریخ (قسط اول
تحریر و تحقیق : ابصار احمد
قیامِ پاکستان کے 70سال مکمل ہونے پر پاکستانی قومی نغمات کی تاریخ کا سلسلہ پیش کررہاہوں جو اب تک کسی بھی شکل میں اشاعت پذیر نہیں ہوا ، ریکارڈ شدہ اور موسیقی سے ہم آہنگ قومی نغمات کی تاریخ پر اب تک کسی نے تحقیقی کام نہیں کیا ہے جو الحمداللہ اس ذاتِ باری نے میرے حصے میں رکھا تھا جسے جلد کتابی صورت میں لاؤں گا مگر سوشل میڈیا پر دوستوں کی فرمائش نے مجبور کیا کہ ستّر سالوں میں نغمات پر جس طرخ ملکی اخبارات میں مضامین اور انٹرنیٹ پر بلاگز لکھے اسی طرح ایک مختصر تاریخ بھی لکھ دی جائے تو آج بوقتِ فجر سے یہ سلسلہ شروع ہورہا ہے ، یہ واضح رہے کہ یہ مختصر تاریخ ہے اسی لیے کوئی ذاتی بغض یا عناد سے تنقید نہ کرے کہ فلاں نغمہ رہ گیا ، کوشش کروں گا کہ اس سلسلہ میں ایک اہم آؤٹ لائن بن جائے اور موضوعات کا احاطہ بھی ہوجائے مگر چونکہ کتاب زیرِتکمیل ہے اسی لیے تھوڑی تشنہ لبی رہنی چاہیے ۔
پاکستانی قومی نغمات کا آغاز قیامِ پاکستان کی شب سے ہی شروع ہوگیا تھا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قیامِ پاکستان سے قبل ہی پاکستانی ملّی نظموں کو موسیقی کے قالب میں ڈھال کر ملّی نغمات بننا شروع ہوگئے تھے ، اس ضمن میں کلامِ اقبالؒ نے اہم کردار ادا کیا ، پاکستانی قومی شاعر کی حیثیت سے ان کی قومی شاعری بلاشبہ ہمارے ملّی نغمات کا حصہ ہے ، اور وہ گلوکار جنہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل وہ کلام ملّی جذبے سے گائے ہمارے ہی ملّی نغموں کا حصہ ہیں البتہ لفظ پاکستان کے ساتھ پہلا ملّی نغمہ اعجاز علی کی آواز میں لاہور ریڈیو پر تیار ہوا جس کے بول" کیا ہی پاکیزہ و طاہر نام پاکستان ہے " تھے ، یہ نغمہ ۱۹۴۷ ہی میں بنا ، اس سے قبل کل ہند مسلم لیگ کی جانب سے ۱۹۴۵ میں ہز ماسٹر وائس گراموفون کمپنی کی ڈسک پر منور سلطانہ اور علی بخش ظہور کی مشترکہ آوازوں میں میاں بشیر احمد کی دو معروف نظمیں جو تحریکِ پاکستان کا حصہ تھیں لاہور ریڈیو کے موسیقار غلام قادر فریدی کی موسیقی میں نشر ہوئے ، ۷۸ کی رفتار سے چلنے والی اس ڈسک کی کاپی قائدِ اعظمؒ کو بھی پیش کی گئی ۔
پاکستانی قومی نغمات کا آغاز قیامِ پاکستان کی شب سے ہی شروع ہوگیا تھا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قیامِ پاکستان سے قبل ہی پاکستانی ملّی نظموں کو موسیقی کے قالب میں ڈھال کر ملّی نغمات بننا شروع ہوگئے تھے ، اس ضمن میں کلامِ اقبالؒ نے اہم کردار ادا کیا ، پاکستانی قومی شاعر کی حیثیت سے ان کی قومی شاعری بلاشبہ ہمارے ملّی نغمات کا حصہ ہے ، اور وہ گلوکار جنہوں نے قیامِ پاکستان سے قبل وہ کلام ملّی جذبے سے گائے ہمارے ہی ملّی نغموں کا حصہ ہیں البتہ لفظ پاکستان کے ساتھ پہلا ملّی نغمہ اعجاز علی کی آواز میں لاہور ریڈیو پر تیار ہوا جس کے بول" کیا ہی پاکیزہ و طاہر نام پاکستان ہے " تھے ، یہ نغمہ ۱۹۴۷ ہی میں بنا ، اس سے قبل کل ہند مسلم لیگ کی جانب سے ۱۹۴۵ میں ہز ماسٹر وائس گراموفون کمپنی کی ڈسک پر منور سلطانہ اور علی بخش ظہور کی مشترکہ آوازوں میں میاں بشیر احمد کی دو معروف نظمیں جو تحریکِ پاکستان کا حصہ تھیں لاہور ریڈیو کے موسیقار غلام قادر فریدی کی موسیقی میں نشر ہوئے ، ۷۸ کی رفتار سے چلنے والی اس ڈسک کی کاپی قائدِ اعظمؒ کو بھی پیش کی گئی ۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو آزادی کا شور تھا تو اسی دن لاہور، پشاور اور ڈھاکا ریڈیو شبِ آزادی کی نشریات میں مصروف تھے ، ۱۴ اور ۱۵ کی درمیانی شب جب اعلانِ قیامِ پاکستان ہوا تو کلام اللہ سے ترانہ یعنی سورۃ الفتح کی تلاوت کے بعد نشریات شروع ہوتی ہے تو اسی رات پشاور ریڈیو سے اسٹیشن ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی اور ساتھیوں کی آوازوں میں احمد ندیم قاسمی کا تحریر کاردہ نغمہ "پاکستان بنانے والو پاکستان مبارک ہو"گونجتا ہے ، اس وقت ریڈیو کے کسی بھی اسٹیشن کے پاس ریکارڈنگ کی سہولیات موجود نہ تھیں اسی لیے یہ نغمہ محفوظ نہ ہوسکا اور چونکہ اس میں نغمگی نہیں تھی بس ردھم پر ایک کورس تھا اسی لیے کسی ریکارڈنگ کمپنی نے بھی اسے محفوظ نہیں کیا ، پشاور ریڈیو کے اس اہم ترانے سے اس طرح غفلت برتی گئی کہ قاسمی صاحب نے بھی اسے کہیں شائع نہیں کروایا بلکہ ان کو اس ابتدائی بول کے علاوہ کچھ یاد بھی نہ تھا ! بہرحال قاسمی صاحب کے بقول اُس دن انہوں نے ۳ ترانے لکھے تھے ، پشاور ریڈیو کے بعد اہم ریڈیو لاہور اسٹیشن تھا جہاں فنکاروں کی بڑی تعداد تھی جو مقامی طور پر مناسب شناخت رکھتی تھی ، انہی میں ایک اہم نام منور سلطانہ کا بھی تھا جو فلموں کے لیے اپنی آواز کا جادو جگا رہی تھیں ، قائدِ اعظمؒ کے لیے دو سال قبل سب سے پہلے نغمات گانے والی اس گلوکارہ نے شوکت تھانوی کا تحریر کرد نغمہ " چاند روشن چمکتا ستارہ رہے " سب سے پہلے پیش کیا تو یہ بھی پاکستان کا پہلا قومی نغمہ تھا بلکہ قاسمی صاحب کا ترانہ جب پشاور ریڈیو سے نشر ہورہا تھا تو لاہور سے منور سلطانہ یہ نغمہ دلشاد بیگم اور ساتھیوں کے ساتھ گارہی تھیں اسی لیے یہ پاکستان کا پہلا نشر شدہ قومی نغمہ کہلاتا ہے جو پاکستان کی آزاد فضاؤں میں پہلی بار گونجا ، منور سلطانہ اسی دن اپنے والد کے ساتھ ہنگامی حالات میں لاہور ریڈیو آئی تھیں اور یہ نغمہ ریکارڈ کروایا جس کی ریہرسل ۱۲ اگست سے ہی قادر فریدی صاحب کی موسیقی میں ہورہی تھی ( اس نغمہ کے متعلق ریڈیو پاکستان کے ماہنامہ آہنگ نے ۱۹۴۸ کو اگست میں ایک مضمون شائع کیا ، بعنوان آزادی کی یادیں ، اس مضمون میں منور سلطانہ نے خود نغمے کا نام بتایا ہے ، اس کے علاوہ اسلام شاہ مرحوم صاحب کا منور سلطانہ سے لیا گیا انٹرویو بھی موجود ہے جس میں انہوں نے ایک بار پھر بتایا اور سب سے بڑھ کر لاہور ریڈیو کی لاگ شیٹ ہے جو بتارہی ہے کہ چاند روشن چمکتا ستارہ رہے لاہور کی طرف سے پاکستان کا پہلا قومی نغمہ تھا ) یہ نغمہ جب آزاد فضاؤں میں نشر ہوا تو قومی پرچم اور قومی جذبے سے پُر اس نغمے نے سامعین کی آنکھیں پرنم کردیں ، منور سلطانہ اور دلشاد بیگم کی مشترکہ آوازوں میں یہ نغمہ اس ایک عرصہ تک روزانہ ریڈیو سے دو یا تین بار نشر ہوتا بلکہ کسی کسی موقع پر یہ بطورِ قومی ترانہ بھی پیش کیا گیا ( کیونکہ اس وقت قومی ترانہ نہیں بنا تھا )، اس نغمے کے گراموفون ریکارڈ بھی تیار ہوئے جس کی دونوں جانب یہی نغمہ تھا اور یہ لاہور اسٹیشن پر ہجرت کرکے آنے والے ان لوگوں کو بھی پیش کیے جاتے جن کے پاس گراموفون ہوتا یا جو باذوق لگ رہے ہوتے جبکہ اسٹیشن پر اسی کی گونج سنائی دی جاتی ( معلومات بشکریہ کرنل (ر) حبیب الرحمٰن ، ساکنِ لاہور جو اس وقت سیکنڈ لیفٹننٹ تھے ) ۔
قیامِ پاکستان کی شب لاہور ریڈیو سے مولانا ظفر علی خان کا نغمہ " توحید کی تانیں اڑائے جا "اور اقبالؒ کی ملی نظم "ساقی نامہ" کے کچھ حصے " زمانے کے انداز بدلے گئے" بھی بطرزِ قوالی نشر ہوئے جو موقع مناسبت سے تیار کیے گئے تھے ( بحوالہ : پاکستان کا قومی ترانہ کیا حقیقت کیا فسانہ از عقیل عباس جعفری ) ۔ کچھ بھارت نواز اور کچھ سادہ لوح افراد میں یہ بات ایک سازش کے تحت عام ہوئی ہے کہ اس دن جگن ناتھ آزاد کا ترانہ بھی نشر ہوا جو پاکستان کا قومی ترانہ تھا جبکہ ایسا کچھ نہیں نہ ریڈیو کا ریکارڈ کچھ کہتا ہے نہ تاریخ ! اور لوگوں کا حافظہ بھی اتنا کمزور نہیں کہ انہیں ایک اہم چیز سن کر بھی یاد نہ ہو ! بہر حال اس کا مربوط جواب جناب عقیل عباس جعفری صاحب نے اپنی تحقیقی کتاب "پاکستان کا قومی ترانہ کیا حقیقت کیا فسانہ " لکھ کر دے دیا ہے. 15 اگست کی صبح پرچم کشائی کی تقریب میں اسرار الحق مجاز کا تحریر کردہ نغمہ " پاکستان زندہ باد آزادی پائندہ باد " کورس میں نیوی بینڈ پر پڑھا گیا جو شرکاء نے مل کر پڑھا اس کی بھی کوئی خاص دھن نہ تھی نہ گانے والے کوئی باضابطہ گلوکار تھے ۔
لاہور ریڈیو سے ابتدائی زمانے میں ستارہ بیگم کی آواز میں " مبارک آزادی مبارک آزادی " اور " فردوس کا نقشہ ہے پاکستان ہمارا " بھی نشر ہوئے ، ان کے علاوہ پہلے یومِ آزادی پر لاہور ریڈیو سے اقبال بیگم اور ساتھیوں کی آوازوں میں خوبصورت نغمات " چن تارہ پاکستان دا" اور " رم جھم رم جھم ورسے "نشر ہوئے جنہیں سامعین نے بے حد پسند کیا جنبہ منور سلطانہ نے "اپنے دیس میں اپنا راج" ریکارڈ کروایا ، لاہور ریڈیو کے ایک کلاسیکل گلوکار علی بخش ظہور نے 'پاکستان زندہ باد" جیسا نغمہ گایا جو زرمیہ آہنگ پر تھا ۔ مشرقی پاکستان کے معروف گلوکار محمد عباس دین نے " زمیں فردوس پاکستان کی ہوگی زمانے میں " گایا جس کے گراموفون آتے ہی بک گئے ، اس نغمہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پہلا قومی نغمہ تھا جس کا اشتہار روزنامہ" انقلاب " لاہور میں شائع ہوا ( بشکریہ جناب امجد سلیم علوی صاحب فرزندِ مولانا غلام رسول مہرؒ ) ۔ دلشاد بیگم نے عبدالرؤف شیخ کا تحریر کردہ نغمہ " میرا دیس میری تقدیر اپنے دیس دی میں تصویر " گایا تو اس کا شمار بھی ابتدائی مقبول قومی نغمات میں ہوتا ہے ۔منور سلطانہ اور پائلٹ اسکول کے بچوں نے لاہور ریڈیو پر اقبالؒ کی تحریر کردہ "بچے کی دعا" کے ساتھ ایک خوبصورت قومی نغمہ " اونچی تیری شان سچی تیری آن پیارے پاکستان " بھی ریکارڈ کروایا جو ۱۹۵۴ تک لاہور کے علاوہ قومی نشریاتی رابطے پر بھی روزانہ صبح نشر ہوتا کہ قومی ترانے کا گمان ہونے لگا ۔
قیامِ پاکستان کی شب لاہور ریڈیو سے مولانا ظفر علی خان کا نغمہ " توحید کی تانیں اڑائے جا "اور اقبالؒ کی ملی نظم "ساقی نامہ" کے کچھ حصے " زمانے کے انداز بدلے گئے" بھی بطرزِ قوالی نشر ہوئے جو موقع مناسبت سے تیار کیے گئے تھے ( بحوالہ : پاکستان کا قومی ترانہ کیا حقیقت کیا فسانہ از عقیل عباس جعفری ) ۔ کچھ بھارت نواز اور کچھ سادہ لوح افراد میں یہ بات ایک سازش کے تحت عام ہوئی ہے کہ اس دن جگن ناتھ آزاد کا ترانہ بھی نشر ہوا جو پاکستان کا قومی ترانہ تھا جبکہ ایسا کچھ نہیں نہ ریڈیو کا ریکارڈ کچھ کہتا ہے نہ تاریخ ! اور لوگوں کا حافظہ بھی اتنا کمزور نہیں کہ انہیں ایک اہم چیز سن کر بھی یاد نہ ہو ! بہر حال اس کا مربوط جواب جناب عقیل عباس جعفری صاحب نے اپنی تحقیقی کتاب "پاکستان کا قومی ترانہ کیا حقیقت کیا فسانہ " لکھ کر دے دیا ہے. 15 اگست کی صبح پرچم کشائی کی تقریب میں اسرار الحق مجاز کا تحریر کردہ نغمہ " پاکستان زندہ باد آزادی پائندہ باد " کورس میں نیوی بینڈ پر پڑھا گیا جو شرکاء نے مل کر پڑھا اس کی بھی کوئی خاص دھن نہ تھی نہ گانے والے کوئی باضابطہ گلوکار تھے ۔
لاہور ریڈیو سے ابتدائی زمانے میں ستارہ بیگم کی آواز میں " مبارک آزادی مبارک آزادی " اور " فردوس کا نقشہ ہے پاکستان ہمارا " بھی نشر ہوئے ، ان کے علاوہ پہلے یومِ آزادی پر لاہور ریڈیو سے اقبال بیگم اور ساتھیوں کی آوازوں میں خوبصورت نغمات " چن تارہ پاکستان دا" اور " رم جھم رم جھم ورسے "نشر ہوئے جنہیں سامعین نے بے حد پسند کیا جنبہ منور سلطانہ نے "اپنے دیس میں اپنا راج" ریکارڈ کروایا ، لاہور ریڈیو کے ایک کلاسیکل گلوکار علی بخش ظہور نے 'پاکستان زندہ باد" جیسا نغمہ گایا جو زرمیہ آہنگ پر تھا ۔ مشرقی پاکستان کے معروف گلوکار محمد عباس دین نے " زمیں فردوس پاکستان کی ہوگی زمانے میں " گایا جس کے گراموفون آتے ہی بک گئے ، اس نغمہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پہلا قومی نغمہ تھا جس کا اشتہار روزنامہ" انقلاب " لاہور میں شائع ہوا ( بشکریہ جناب امجد سلیم علوی صاحب فرزندِ مولانا غلام رسول مہرؒ ) ۔ دلشاد بیگم نے عبدالرؤف شیخ کا تحریر کردہ نغمہ " میرا دیس میری تقدیر اپنے دیس دی میں تصویر " گایا تو اس کا شمار بھی ابتدائی مقبول قومی نغمات میں ہوتا ہے ۔منور سلطانہ اور پائلٹ اسکول کے بچوں نے لاہور ریڈیو پر اقبالؒ کی تحریر کردہ "بچے کی دعا" کے ساتھ ایک خوبصورت قومی نغمہ " اونچی تیری شان سچی تیری آن پیارے پاکستان " بھی ریکارڈ کروایا جو ۱۹۵۴ تک لاہور کے علاوہ قومی نشریاتی رابطے پر بھی روزانہ صبح نشر ہوتا کہ قومی ترانے کا گمان ہونے لگا ۔
۱۹۴۸ میں کراچی ریڈیو قائم ہوا تو یہاں ریکارڈنگ کی سہولیات نہیں تھیں اور نہ موسیقی کے لیے معیاری اوقات تھے اسی لیے یہاں ابتدا میں یہاں موسیقی پر ذیادہ توجہ نہیں تھی تاہم کراچی کے علمی پروگرام اور فیچرز اپنی مثال آپ تھے ، پھر بھی کراچی ریڈیو پر مہدی ظہیر اور نہال عبداللہ جیسے موسیقار آگئے جنہوں نے اس اسٹیشن کو ایک فنّی درسگاہ بھی بنادی ، کراچی ریڈیو کا پہلا نغمہ محشر بدایونی کا تحریر کردہ " دیس ہمارا پاک وطن" تھا جسے کورس میں پیش کیا گیا ، یہاں بھی ریکارڈنگ کی سہولیات ابتدا میں نہ تھیں اسی لیے آوازیں محفوظ نہ ہوسکیں بلکہ ریڈیو کی لاگ شیٹ ہی تاریخ مرتب کرنے کا واحد ذریعہ ہے ۔
( جاری ہے )
#HistoryOfPakistaniNationalSongs #PakPatrioticSongs #MilliNaghmayTareekh #MilliNaghmay
( جاری ہے )
#HistoryOfPakistaniNationalSongs #PakPatrioticSongs #MilliNaghmayTareekh #MilliNaghmay
Yaum-e-Takbeer Songs ( Information of Pak Patriotic Songs ) معلوماتِ قومی نغمات نغماتِ یومِ تکبیر
( معلوماتِ قومی نغمات ( نغماتِ یومِ تکبیر
یومِ تکبیر جو پاکستان کے عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بننے کی یاد میں منایا جاتا ہےہماری ہی نہیں ملّتِ اسلامیہ کی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان نے ثابت کردیا کہ قلعہ اسلام صرف لفظی نہیں حقیقی ہے ۔ اس دن کی مناسبت سے ریڈیو اور ٹی وی نے قومی نغمات بھی ترتیب دیے ۔ ۲۸ مئی کو پاکستان نے چاغی پر پانچ کامیاب دھماکے کیے تو صرف ۲ دن بعد پہلا خصوصی نغمہ سنٹرل پروڈکشن یونٹ ریڈیو پاکستان کراچی نے تیار کیا جسے تاج ملتانی ، جاوید اختر ، وہاب خان اور ساتھیوں نے گایا ، یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ تاج ملتانی جنہوں نے جنگِ ستمبر میں کراچی ریڈیو کے لیے پہلا نغمہ " جاگ رہا ہے پاکستان " ریکارڈکروایا تھا یومِ تکبیر کےا س عظیم موقع پر انہیں پورے پاکستان کے ریڈیو اسٹیشنز کے لیے نغمہ ریکارڈ کروانے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا ۔ اس نغمہ کے بول کچھ یوں ہیں :
آگیا عظمت و وقار کا دن "
"کٹ گیا آخر کا انتطار کا دن
کیونکہ ایک عرصہ سے بلکہ جنگِ ستمبر کے بعد سے ہم ایٹمی قوت بننے کے لیے کوشاں تھے اور بھارت کی للکار کا واضح جواب بھی دینا تھا ۔ ریڈیو پاکستان لاہور نے پہلا نغمہ " ہم جوہری قوت ہیں" اعجاز قیصر ، ترنم نازاور ساتھیوں کی آواز میں ریکارڈ کیا جسے عاصی کرنالی نے تخلیق کیا ۔لفظ " یومِ تکبیر " پر غلام عباس اور ساتھیوں نے راغب مرادآبادی کا تحریر کردہ نغمہ " یومِ تکبیر اللہ اکبر " کراچی ریڈیو پر ریکارڈ کروایا ۔ محسن عرف بنی کا نغمہ " ایک قوم زندہ قوم پاکستانی قوم " بھی اسی تناظر میں پاکستان ٹیلیوژن سے یومِ تکبیر کے بعد روزانہ خبرنامہ کے بعد نشر ہوتا ، اسی طرح علی شیر نے " تکبیر ہے زور کی ، گونجے تو لرزے زمیں " بھی اپنے البم میں شامل کیا تو یہ اس موجوع پر پہلا نغمہ تھا جو کسی پرائیویٹ گلوکار کے البم میں آیا ہو ۔لفظ "چاغی" پر پہلا نغمہ پاکستان ٹیلویژن لاہور مرکز نے تیار کیا جسے کوکب خان نے گایا مگر اس میں نواز شریف کا زکر تھا تو وہ آئندہ کے لیے بین ہوگیا ، نغمہ پرجوش تھا جسے خواجہ پرویز نے لکھا ، نغمہ کے بول کچھ یوں تھے :
اے چاغی تیری قسمت جاگی "
قربانی مٹی نے مانگی
دشمن نے ہم کو للکارا
کیسا کٹھن وقت تھا آیا
میاں نواز نے قدم بڑھایا
قوم کو مشکل سے ہے نکالا
عبدالقدیر خان جو آئے
دشمن کے سب ہوش اڑائے
چاغی کی مٹی کو سلام
"کٹ گیا آخر کا انتطار کا دن
کیونکہ ایک عرصہ سے بلکہ جنگِ ستمبر کے بعد سے ہم ایٹمی قوت بننے کے لیے کوشاں تھے اور بھارت کی للکار کا واضح جواب بھی دینا تھا ۔ ریڈیو پاکستان لاہور نے پہلا نغمہ " ہم جوہری قوت ہیں" اعجاز قیصر ، ترنم نازاور ساتھیوں کی آواز میں ریکارڈ کیا جسے عاصی کرنالی نے تخلیق کیا ۔لفظ " یومِ تکبیر " پر غلام عباس اور ساتھیوں نے راغب مرادآبادی کا تحریر کردہ نغمہ " یومِ تکبیر اللہ اکبر " کراچی ریڈیو پر ریکارڈ کروایا ۔ محسن عرف بنی کا نغمہ " ایک قوم زندہ قوم پاکستانی قوم " بھی اسی تناظر میں پاکستان ٹیلیوژن سے یومِ تکبیر کے بعد روزانہ خبرنامہ کے بعد نشر ہوتا ، اسی طرح علی شیر نے " تکبیر ہے زور کی ، گونجے تو لرزے زمیں " بھی اپنے البم میں شامل کیا تو یہ اس موجوع پر پہلا نغمہ تھا جو کسی پرائیویٹ گلوکار کے البم میں آیا ہو ۔لفظ "چاغی" پر پہلا نغمہ پاکستان ٹیلویژن لاہور مرکز نے تیار کیا جسے کوکب خان نے گایا مگر اس میں نواز شریف کا زکر تھا تو وہ آئندہ کے لیے بین ہوگیا ، نغمہ پرجوش تھا جسے خواجہ پرویز نے لکھا ، نغمہ کے بول کچھ یوں تھے :
اے چاغی تیری قسمت جاگی "
قربانی مٹی نے مانگی
دشمن نے ہم کو للکارا
کیسا کٹھن وقت تھا آیا
میاں نواز نے قدم بڑھایا
قوم کو مشکل سے ہے نکالا
عبدالقدیر خان جو آئے
دشمن کے سب ہوش اڑائے
چاغی کی مٹی کو سلام
"چاغی کی مٹی کو سلام
( ابصار احمد )